یوں ہی جلائے چلو دوستو بھرم کے چراغ
یوں ہی جلائے چلو دوستو بھرم کے چراغ کہ رہ نہ جائیں کہیں بجھ کے یہ الم کے چراغ ہر ایک سمت اندھیرا ہے ہو کا عالم ہے جلاؤ خوب جلاؤ ندیم جم کے چراغ جہاں میں ڈھونڈتے پھرتے ہیں اب خوشی کی کرن کہا تھا کس نے جلاؤ حضور غم کے چراغ وفا کا ایک ہی جھونکا نہ سہہ سکے ظالم تری طرح ہی یہ نکلے ...