پہلے تو اس کی ذات غزل میں سمیٹ لوں
پہلے تو اس کی ذات غزل میں سمیٹ لوں پھر ساری کائنات غزل میں سمیٹ لوں ہوتے ہیں رونما جو زمانے میں روز و شب وہ سارے حادثات غزل میں سمیٹ لوں پہلے تو میں غزل میں کہوں اپنے دل کی بات پھر سب کے دل کی بات غزل میں سمیٹ لوں کوئی خیال ذہن سے بچ کر نہ جا سکے سارے تصورات غزل میں سمیٹ ...