Brahma Nand Jalees

برہما نند جلیس

  • 1930 - 1990

برہما نند جلیس کی غزل

    پوچھتے ہیں بزم میں سن کر وہ افسانہ مرا

    پوچھتے ہیں بزم میں سن کر وہ افسانہ مرا آپ ہیں کہتی ہے دنیا جس کو دیوانہ مرا بس یہی ہے مختصر تشریح حسن و عشق کی وہ تمہاری داستاں ہے یہ ہے افسانہ مرا ہیں تصور میں ترے جلوے تری رعنائیاں رونق صد انجمن ہے آج ویرانہ مرا خود مرے آنسو ہی اس کے حق میں شعلے بن گئے برق و باراں سے تو تھا ...

    مزید پڑھیے

    یہی سمجھا ہوں بس اتنی ہوئی ہے آگہی مجھ کو

    یہی سمجھا ہوں بس اتنی ہوئی ہے آگہی مجھ کو نہ راس آئے گی شاید زندگی بھر زندگی مجھ کو ملا رنج و الم میں بھی سرور زندگی مجھ کو نظر آتی ہے اکثر تیرگی میں روشنی مجھ کو نہ اب احساس رنج و غم نہ احساس خوشی مجھ کو یہ کس مرکز پہ لے آئی مری دیوانگی مجھ کو چھلک آئے ہیں آنسو جب بھی آئی ہے ہنسی ...

    مزید پڑھیے

    داستان شمع تھی یا قصۂ پروانہ تھا

    داستان شمع تھی یا قصۂ پروانہ تھا انجمن میں عشق ہی عنوان ہر افسانہ تھا جستجوئے دیر و کعبہ سے ہوا ظاہر یہی میں حقیقت میں خود اپنی ذات سے بیگانہ تھا میری ہستی تھی بذات خود مکمل مے کدہ میں کبھی شیشہ کبھی ساغر کبھی پیمانہ تھا ہائے وہ ایام طفلی ہائے وہ عہد شباب خواب تھا جو کچھ کہ ...

    مزید پڑھیے

    ہوتی نہیں رسائی برق تپاں کہاں

    ہوتی نہیں رسائی برق تپاں کہاں اے ہم نشیں بنائیے اب آشیاں کہاں ٹھہرے مثال تیری گل ارغواں کہاں اے مہ جبیں زمین کہاں آسماں کہاں چھانا کیا میں خاک دو عالم تمام عمر اپنی تلاش لے گئی مجھ کو کہاں کہاں چھٹتا ہجوم غم سے مرا ساتھ کس طرح جاتا بچھڑ کے مجھ سے مرا کارواں کہاں محدود جن کی ...

    مزید پڑھیے

    مسرت کو مسرت غم کو جو بس غم سمجھتے ہیں

    مسرت کو مسرت غم کو جو بس غم سمجھتے ہیں وہ ناداں زندگی کا راز اکثر کم سمجھتے ہیں حقیقت میں وہی راز حقیقت سے ہیں ناواقف جنہیں دعویٰ ہے یہ راز حقیقت ہم سمجھتے ہیں نہیں حاجت ہمیں اے چارہ سازو چارہ سازی کی ہم اپنے درد ہی کو درد کا مرہم سمجھتے ہیں ہماری سادہ لوحی اس سے بڑھ کر اور کیا ...

    مزید پڑھیے

    تجھ سے تصورات میں اے جان آرزو

    تجھ سے تصورات میں اے جان آرزو باندھے ہیں ہم نے سینکڑوں پیمان آرزو اے رشک نو بہار ترے انتظار میں کیا کیا کھلائے ہم نے گلستان آرزو پھر دل میں داغ ہائے تمنا ہیں ضو فشاں پھر کر رہا ہوں جشن چراغان آرزو دیکھے کوئی یہ ربط کہ مرنے کے بعد بھی چھوٹا نہ دست شوق سے دامان آرزو اب دیکھیے ...

    مزید پڑھیے

    ضو بار اسی سمت ہوئے شمس و قمر بھی

    ضو بار اسی سمت ہوئے شمس و قمر بھی اس شوخ نے پھیرا رخ پر نور جدھر بھی مٹتی ہے کہیں دل سے شب غم کی سیاہی ہوتی ہے کہیں ہجر کے ماروں کی سحر بھی ہیں دونوں جہاں ایک ہی تنویر کے پرتو ہے ایک ہی جلوہ جو ادھر بھی ہے ادھر بھی نکلی تھی ترے جلوۂ رنگیں کی خبر کو گم ہو کے وہیں رہ گئی کمبخت نظر ...

    مزید پڑھیے

    اے جلیسؔ اب اک تمہیں میں آدمیت ہو تو ہو

    اے جلیسؔ اب اک تمہیں میں آدمیت ہو تو ہو ابن آدم ہو یہی جنس وراثت ہو تو ہو رہ گئی تنہا یہ اشک افشاں ہمارے حال پر غم گساری اپنی بھی اک شمع تربت ہو تو ہو آتش غم نے جلا کر خاک کر ڈالا اسے دل کہاں سینے میں اب اک داغ حسرت ہو تو ہو کاروان زندگی کا لگ رہا ہے چل چلاؤ ہر نفس ہم کو صدائے کوس ...

    مزید پڑھیے

    دینے والے یہ زندگی دی ہے

    دینے والے یہ زندگی دی ہے یا مرے ساتھ دل لگی کی ہے ہم کو معلوم ہی نہ تھا یہ راز موت کا نام زندگی بھی ہے آشیانوں کی خیر ہو یا رب صحن‌ گلشن میں روشنی سی ہے ہم نے برسوں جگر جلایا ہے پھر کہیں دل میں روشنی کی ہے آپ سے دوستی کا اک مفہوم ساری دنیا سے دشمنی بھی ہے لوگ مرتے ہیں زندگی کے ...

    مزید پڑھیے