Bedil Haidri

بیدل حیدری

معاشرتی ناہمواری، غربت اور نابرابری جیسے مسائل کو شاعری کا موضوع بنانے والے شاعر

A poet who wrote upon social disparities and poverty

بیدل حیدری کی غزل

    ہم کبھی شہر محبت جو بسانے لگ جائیں

    ہم کبھی شہر محبت جو بسانے لگ جائیں کبھی طوفان کبھی زلزلے آنے لگ جائیں کبھی اک لمحۂ فرصت جو میسر آ جائے میری سوچیں مجھے سولی پہ چڑھانے لگ جائیں رات کا رنگ کبھی اور بھی گہرا ہو جائے کبھی آثار سحر کے نظر آنے لگ جائیں انتظار اس کا نہ اتنا بھی زیادہ کرنا کیا خبر برف پگھلنے میں ...

    مزید پڑھیے

    یہ دل جو مضطرب رہتا بہت ہے

    یہ دل جو مضطرب رہتا بہت ہے کوئی اس دشت میں تڑپا بہت ہے کوئی اس رات کو ڈھلنے سے روکے مرا قصہ ابھی رہتا بہت ہے بہت ہی تنگ ہوں آنکھوں کے ہاتھوں یہ دریا آج کل بہتا بہت ہے بوقت شام اکٹھے ڈوبتے ہیں دل اور سورج میں یارانہ بہت ہے بہت ہی راس ہے صحرا لہو کو کہ صحرا میں لہو اگتا بہت ...

    مزید پڑھیے

    ان کہی کو کہی بنانا ہے

    ان کہی کو کہی بنانا ہے اعتبار سخن بڑھانا ہے میرے اندر کا پانچواں موسم کس نے دیکھا ہے کس نے جانا ہے ڈگڈگی ہی نہیں بجانی مجھے عشق کو ناچ بھی سکھانا ہے تم جو اتنا اٹھا رہے ہو مجھے کس کنویں میں مجھے گرانا ہے رات کو روز ڈوب جاتا ہے چاند کو تیرنا سکھانا ہے ہجر میں نیند کیوں نہیں ...

    مزید پڑھیے

    مری داستان الم تو سن کوئی زلزلہ نہیں آئے گا

    مری داستان الم تو سن کوئی زلزلہ نہیں آئے گا مرا مدعا نہیں آئے گا ترا تذکرہ نہیں آئے گا کئی گھاٹیوں پہ محیط ہے مری زندگی کی یہ رہ گزر تری واپسی بھی ہوئی اگر تجھے راستہ نہیں آئے گا اگر آئے دشت میں جھیل تو مجھے احتیاط سے پھینکنا کہ میں برگ خشک ہوں دوستو مجھے تیرنا نہیں آئے گا اگر ...

    مزید پڑھیے

    ہم تم میں کل دوری بھی ہو سکتی ہے

    ہم تم میں کل دوری بھی ہو سکتی ہے وجہ کوئی مجبوری بھی ہو سکتی ہے پیار کی خاطر کچھ بھی ہم کر سکتے ہیں وہ تیری مزدوری بھی ہو سکتی ہے سکھ کا دن کچھ پہلے بھی چڑھ سکتا ہے دکھ کی رات عبوری بھی ہو سکتی ہے دشمن مجھ پر غالب بھی آ سکتا ہے ہار مری مجبوری بھی ہو سکتی ہے بیدلؔ مجھ میں یہ جو اک ...

    مزید پڑھیے

    دل کہیں بھی نہیں لگتا ہوگا

    دل کہیں بھی نہیں لگتا ہوگا دل نہیں مانتا ایسا ہوگا جتنا ہنگامہ زیادہ ہوگا آدمی اتنا ہی تنہا ہوگا چلتا پھرتا ہے ستارہ میرا اب کہیں اور چمکتا ہوگا میں نے اک بات چھپا رکھی ہے اب اسی بات کا چرچا ہوگا

    مزید پڑھیے

    یہ جو چہروں پہ لئے گرد الم آتے ہیں

    یہ جو چہروں پہ لئے گرد الم آتے ہیں یہ تمہارے ہی پشیمان کرم آتے ہیں اتنا کھل کر بھی نہ رو جسم کی بستی کو بچا بارشیں کم ہوں تو سیلاب بھی کم آتے ہیں تو سنا تیری مسافت کی کہانی کیا ہے میرے رستے میں تو ہر گام پہ خم آتے ہیں خول چہروں پہ چڑھانے نہیں آتے ہم کو گاؤں کے لوگ ہیں ہم شہر میں ...

    مزید پڑھیے

    رہنے دے رتجگوں میں پریشاں مزید اسے

    رہنے دے رتجگوں میں پریشاں مزید اسے لگنے دے ایک اور بھی ضرب شدید اسے جی ہاں وہ اک چراغ جو سورج تھا رات کا تاریکیوں نے مل کے کیا ہے شہید اسے فاقے نہ جھگیوں سے سڑک پر نکل پڑیں آفت میں ڈال دے نہ یہ بحران عید اسے فرط خوشی سے وہ کہیں آنکھیں نہ پھوڑ لے آرام سے سناؤ سحر کی نوید اسے ہر ...

    مزید پڑھیے

    دریا نے کل جو چپ کا لبادہ پہن لیا

    دریا نے کل جو چپ کا لبادہ پہن لیا پیاسوں نے اپنے جسم پہ صحرا پہن لیا وہ ٹاٹ کی قبا تھی کہ کاغذ کا پیرہن جیسا بھی مل گیا ہمیں ویسا پہن لیا فاقوں سے تنگ آئے تو پوشاک بیچ دی عریاں ہوئے تو شب کا اندھیرا پہن لیا گرمی لگی تو خود سے الگ ہو کے سو گئے سردی لگی تو خود کو دوبارہ پہن ...

    مزید پڑھیے

    بھوک چہروں پہ لیے چاند سے پیارے بچے

    بھوک چہروں پہ لیے چاند سے پیارے بچے بیچتے پھرتے ہیں گلیوں میں غبارے بچے ان ہواؤں سے تو بارود کی بو آتی ہے ان فضاؤں میں تو مر جائیں گے سارے بچے کیا بھروسہ ہے سمندر کا خدا خیر کرے سیپیاں چننے گئے ہیں مرے سارے بچے ہو گیا چرخ ستم گر کا کلیجہ ٹھنڈا مر گئے پیاس سے دریا کے کنارے ...

    مزید پڑھیے