بشیر سیفی کی غزل

    کسے خبر ہے میں دل سے کہ جاں سے گزروں گا

    کسے خبر ہے میں دل سے کہ جاں سے گزروں گا جو بار بار صف دشمناں سے گزروں گا یقین بھی تجھے آئے گا میری ہستی پر یہی نہیں کہ میں تیرے گماں سے گزروں گا ہر ایک شے مری جانب ہی ملتفت ہوگی میں تیرے ساتھ اگر شہر جاں سے گزروں گا اندھیری رات کا مجھ کو ذرا بھی خوف نہیں کئی چراغ جلیں گے جہاں سے ...

    مزید پڑھیے

    ظاہر مری شکست کے آثار بھی نہیں

    ظاہر مری شکست کے آثار بھی نہیں مجھ کو یقین فتح کا اس بار بھی نہیں قید مکاں سے دیکھیے کب تک رہائی ہو اب تک تو بد گماں در و دیوار بھی نہیں کس سحر کی گرفت میں آئے ہوئے ہیں ہم آنکھیں بھی ہیں کھلی ہوئی بیدار بھی نہیں جو کچھ کہ دل میں ہو بھری محفل میں کہہ سکے ہر شخص میں یہ جرأت اظہار ...

    مزید پڑھیے

    خود اپنا اعتبار گنواتا رہا ہوں میں

    خود اپنا اعتبار گنواتا رہا ہوں میں ذرے کو آفتاب بتاتا رہا ہوں میں اندھی ہوا کو دوں کوئی الزام کس لیے اپنے دیئے کو آپ بجھاتا رہا ہوں میں اک عمر کے ریاض کا حاصل نہ پوچھئے ریگ رواں پہ نقش بناتا رہا ہوں میں ہر چند مصلحت کا تقاضا کچھ اور تھا آئینہ ہر کسی کو دکھاتا رہا ہوں میں بچوں ...

    مزید پڑھیے

    ایسا لگتا ہے مخالف ہے خدائی میری

    ایسا لگتا ہے مخالف ہے خدائی میری کوئی کرتا ہی نہیں کھل کے برائی میری مجھ میں مدفون بڑے شہر معانی تھے مگر دور تک کر نہ سکا وقت خدائی میری بے صدا شہر تھا خاموش تھے گلیوں کے مکیں ایک مدت مجھے آواز نہ آئی میری خیر خواہی کا رہا یوں تو سبھی کو دعویٰ چاہتا بھی تو کوئی دل سے بھلائی ...

    مزید پڑھیے

    حبس کے دنوں میں بھی گھر سے کب نکلتے ہیں

    حبس کے دنوں میں بھی گھر سے کب نکلتے ہیں دائرے کے اندر ہی راستے بدلتے ہیں خون جلتا رہتا ہے گاؤں کے جوانوں کا کارخانے شہروں کے کب دھواں اگلتے ہیں تیرے نام کا تارا جانے کب دکھائی دے اک جھلک کی خاطر ہم رات بھر ٹہلتے ہیں اب سفر کوئی بھی ہو میں کہاں اکیلا ہوں تیرے چاند سورج بھی ساتھ ...

    مزید پڑھیے

    بھولا بسرا خواب ہوئے ہم

    بھولا بسرا خواب ہوئے ہم کچھ ایسے نایاب ہوئے ہم دریا بن کر سوکھ گئے تھے قطرے سے سیراب ہوئے ہم جانے کس منظر سے گزرے پل بھر میں برفاب ہوئے ہم خود اپنی ہی گہرائی میں آخر کو غرقاب ہوئے ہم خوابوں کی تعبیر بھی دیکھیں اتنے کب خوش خواب ہوئے ہم بات زباں پر لا کر سیفیؔ بے وقعت بے آب ...

    مزید پڑھیے

    اس بحر بے صدا میں کچھ اور نیچے جائیں

    اس بحر بے صدا میں کچھ اور نیچے جائیں آواز کا خزینہ شاید تہوں میں پائیں گلیوں میں سڑ رہی ہیں بیتے دنوں کی لاشیں کمرے میں گونجتی ہیں بے نام سی صدائیں ماضی کی یہ عمارت مہماں ہے کوئی دم کی دیوار و در شکستہ اور تیز تر ہوائیں لیتے ہی ہاتھ میں کیوں اخبار پھاڑ ڈالا کیسی خبر چھپی تھی ہم ...

    مزید پڑھیے

    اک حسن بے مثال کے جو روبرو ہوں میں

    اک حسن بے مثال کے جو روبرو ہوں میں محسوس ہو رہا ہے خود اپنا عدو ہوں میں اپنی گرفت شوق سے نکلوں تو کس طرح پھیلا ہوا جہاں میں ہر ایک سو ہوں میں مجھ پہ تری حیات کا دار و مدار ہے جذبوں سے جھانکتا ہوا زندہ لہو ہوں میں گونجوں گا تیرے ذہن کے گنبد میں رات دن جس کو نہ تو بھلا سکے وہ گفتگو ...

    مزید پڑھیے