باقی احمد پوری کی غزل

    تو نہیں تو تیرا درد جاں فزا مل جائے گا

    تو نہیں تو تیرا درد جاں فزا مل جائے گا زندہ رہنے کا کوئی تو آسرا مل جائے گا اے مری چشم پشیماں اپنے آنسو روک لے رات کی تنہائی میں رونے سے کیا مل جائے گا زندگی کے کارواں پر کچھ اثر پڑتا نہیں اک مسافر کھو گیا تو دوسرا مل جائے گا ساری بستی میں فقط میرا ہی گھر ہے بے چراغ تیرگی سے آپ ...

    مزید پڑھیے

    بہت جلدی تھی گھر جانے کی لیکن (ردیف .. ے)

    بہت جلدی تھی گھر جانے کی لیکن مجھے پھر شام رستے میں پڑی ہے نصاب زندگی جس میں لکھا ہے کتاب دل وہ بستے میں پڑی ہے نہیں ارزاں متاع رائیگانی مگر مجھ کو یہ سستے میں پڑی ہے وہ ایسے ڈھونڈنے نکلے ہیں باقیؔ محبت جیسے رستے میں پڑی ہے

    مزید پڑھیے

    مجھ سے بچھڑ کے وہ بھی پریشان تھا بہت

    مجھ سے بچھڑ کے وہ بھی پریشان تھا بہت جس کی نظر میں کام یہ آسان تھا بہت سوچا تو بے خلوص تھیں سب اس کی قربتیں جس کے بغیر گھر مرا ویران تھا بہت بے خواب سرخ آنکھوں نے سب کچھ بتا دیا کل رات دل میں درد کا طوفان تھا بہت یہ کیا کیا کہ پیار کا اظہار کر دیا میں اپنی اس شکست پہ حیران تھا ...

    مزید پڑھیے

    تیری طرح ملال مجھے بھی نہیں رہا

    تیری طرح ملال مجھے بھی نہیں رہا جا اب ترا خیال مجھے بھی نہیں رہا تو نے بھی موسموں کی پذیرائی چھوڑ دی اب شوق ماہ و سال مجھے بھی نہیں رہا میرا جواب کیا تھا تجھے بھی خبر نہیں یاد اب ترا سوال مجھے بھی نہیں رہا جس بات کا خیال نہ تو نے کبھی کیا اس بات کا خیال مجھے بھی نہیں رہا توڑا ہے ...

    مزید پڑھیے

    دشت و دریا کے یہ اس پار کہاں تک جاتی

    دشت و دریا کے یہ اس پار کہاں تک جاتی گھر کی دیوار تھی دیوار کہاں تک جاتی مٹ گئی حسرت دیدار بھی رفتہ رفتہ ہجر میں حسرت دیدار کہاں تک جاتی تھک گئے ہونٹ ترا نام بھی لیتے لیتے ایک ہی لفظ کی تکرار کہاں تک جاتی لاج رکھنا تھی مسیحائی کی ہم کو ورنہ دیکھتے لذت آزار کہاں تک جاتی راہبر ...

    مزید پڑھیے

    اداس بام ہے در کاٹنے کو آتا ہے

    اداس بام ہے در کاٹنے کو آتا ہے ترے بغیر یہ گھر کاٹنے کو آتا ہے خیال موسم گل بھی نہیں ستم گر کو بہار میں بھی شجر کاٹنے کو آتا ہے فقیہ شہر سے انصاف کون مانگے گا فقیہ شہر تو سر کاٹنے کو آتا ہے اسی لیے تو کسانوں نے کھیت چھوڑ دئیے کہ کوئی اور ثمر کاٹنے کو آتا ہے ترے خیال کا آہو کہیں ...

    مزید پڑھیے

    یوں ستم گر نہیں ہوتے جاناں

    یوں ستم گر نہیں ہوتے جاناں پھول پتھر نہیں ہوتے جاناں کیوں مرے دل سے کہیں جاتے ہو گھر سے بے گھر نہیں ہوتے جاناں وصل کی شب جو کرم تم نے کیے کیوں مکرر نہیں ہوتے جاناں ہم تمہیں بت کی طرح پوجتے ہیں پھر بھی کافر نہیں ہوتے جاناں غم کے دیپک نہیں جلتے جب تک دل منور نہیں ہوتے جاناں ہم ...

    مزید پڑھیے

    اڑے نہیں ہیں اڑائے ہوئے پرندے ہیں

    اڑے نہیں ہیں اڑائے ہوئے پرندے ہیں ہمیں نہ چھیڑ ستائے ہوئے پرندے ہیں قفس میں قید کرو یا ہمارے پر کاٹو تمہارے جال میں آئے ہوئے پرندے ہیں ہوا چلے گی تو بچے اڑائیں گے ان کو یہ کاغذوں سے بنائے ہوئے پرندے ہیں جمے ہوئے ہیں یہ شاخوں پہ اس طرح جیسے شجر کے ساتھ اگائے ہوئے پرندے ہیں فلک ...

    مزید پڑھیے

    سامنے سب کے نہ بولیں گے ہمارا کیا ہے

    سامنے سب کے نہ بولیں گے ہمارا کیا ہے چھپ کے تنہائی میں رو لیں گے ہمارا کیا ہے گلشن عشق میں ہر پھول تمہارا ہی سہی ہم کوئی خار چبھو لیں گے ہمارا کیا ہے عمر بھر کون رہے ابر کرم کا محتاج داغ دل اشکوں سے دھو لیں گے ہمارا کیا ہے ہاتھ آیا نہ اگر دست حنائی تیرا انگلیاں خوں میں ڈبو لیں گے ...

    مزید پڑھیے

    روز وحشت ہے مرے شہر میں ویرانی کی

    روز وحشت ہے مرے شہر میں ویرانی کی اب کوئی بات نہیں بات پریشانی کی میرے دریا کبھی دریا بھی ہوا کرتے تھے اب بھی آواز سی آتی ہے مجھے پانی کی آئنہ خانے کے باہر وہ مجھے پوچھتے ہیں آئنہ خانے میں کیا بات تھی حیرانی کی اب غزالاں سے کہو چھپ کے کہیں بیٹھ رہیں آمد آمد ہے کسی غول بیابانی ...

    مزید پڑھیے