Balbir Rathi

بلبیر راٹھی

بلبیر راٹھی کی غزل

    خول سا اوڑھے ہوئے لگتے ہیں لوگ

    خول سا اوڑھے ہوئے لگتے ہیں لوگ بات کیا ہے اتنے چپ کیسے ہیں لوگ بند کمروں سے ابھی نکلے ہیں لوگ اور ہی انداز سے ملتے ہیں لوگ جس کو دیکھو ہے وہی جھلسا ہوا کس دہکتی آگ سے نکلے ہیں لوگ کون کسی کی فکر کرتا ہے یہاں اپنے اپنے جال میں الجھے ہیں لوگ روشنی کی کیوں نہیں کرتے تلاش کیوں ...

    مزید پڑھیے

    راہ میں یوں تو مرحلے ہیں بہت

    راہ میں یوں تو مرحلے ہیں بہت ہم سفر پھر بھی آ گئے ہیں بہت یہ الگ بات ہم نہ ڈھونڈھ سکے ورنہ منزل کے راستے ہیں بہت جن کو منزل نہ راستے کا پتہ ایسے رہبر ہمیں ملے ہیں بہت آؤ سورج کو چھین کر لائیں یہ اندھیرے تو بڑھ گئے ہیں بہت دور کی منزلیں ہیں نظروں میں اب کے یاروں کے حوصلے ہیں ...

    مزید پڑھیے

    ایسے گم سم وہ سوچتے کیا تھے

    ایسے گم سم وہ سوچتے کیا تھے جانے یاروں کے فیصلے کیا تھے ہم تو یوں ہی رکے رہے ورنہ اپنے آگے وہ فاصلے کیا تھے بوجھ دل کا اتارنا تھا ذرا ورنہ تم سے ہمیں گلے کیا تھے صحرا صحرا لئے پھرے ہم کو وہ جنوں کے بھی سلسلے کیا تھے دور تک تھی نہ گر کوئی منزل پھر وہ اجلے نشان سے کیا تھے ہم ہی ...

    مزید پڑھیے

    احساسات کی بستی میں جب ہر جانب اک سناٹا تھا

    احساسات کی بستی میں جب ہر جانب اک سناٹا تھا میں آوازوں کے جنگل میں تب جانے کیا ڈھونڈ رہا تھا جن راہوں سے اپنے دل کا ہر قصہ منسوب رہا ہے اب تو یہ بھی یاد نہیں ہے ان راہوں کا قصہ کیا تھا آج اسی کے افسانوں کا محفل محفل چرچا ہوگا کل چوراہے پر تنہا جو شخص بہت خاموش کھڑا تھا یوں جیون ...

    مزید پڑھیے

    ذرہ ذرہ پگھلنے والا تھا

    ذرہ ذرہ پگھلنے والا تھا سارا منظر بدلنے والا تھا صبر ہم سے نہ ہو سکا ورنہ اپنی ضد سے وہ ٹلنے والا تھا ضبط کرتے تو ایک اک ذرہ راز اپنا اگلنے والا تھا تم اندھیروں سے ڈر گئے یوں ہی ورنہ سورج نکلنے والا تھا تم نے اچھا کیا جو تھام لیا ورنہ میں کب سنبھلنے والا تھا جو رہا اک حریف کی ...

    مزید پڑھیے

    پھر فضا میں کوئی زہریلا دھواں بھر جائے گا

    پھر فضا میں کوئی زہریلا دھواں بھر جائے گا پھر کسی دن اپنے اندر کچھ نہ کچھ مر جائے گا پھیلتا جاتا ہے یہ جو ہر طرف اک شور سا ایک سناٹا کسی دہلیز پر دھر جائے گا یوں رہا تو سارے منظر بد نما ہو جائیں گے اک بھیانک رنگ ہر تصویر میں بھر جائے گا کر رہا ہے اپنی بستی میں جو خوشیوں کی ...

    مزید پڑھیے

    چاہا جن کو بھی زندگی کی طرح

    چاہا جن کو بھی زندگی کی طرح وہ ملے مجھ کو اجنبی کی طرح مجھ کو الہام ہو گیا شاید بات کرتا ہوں اک نبی کی طرح جانے کتنے سوال ابھرے ہیں جب بھی سوچا ہے فلسفی کی طرح سارا منظر نکھرتا جاتا ہے کون ہنستا ہے آپ ہی کی طرح خوب چرچا ہے گو سویروں کا رات پھر بھی ہے رات ہی کی طرح وقت کی بات ہے ...

    مزید پڑھیے

    رات کیا ڈھل گئی سمندر میں

    رات کیا ڈھل گئی سمندر میں گھل گئی تیرگی سمندر میں ایک سرخی پہاڑ سے ابھری پھر اترتی گئی سمندر میں اک سفینہ کہیں پہ ڈوبا تھا کتنی ہلچل ہوئی سمندر میں خود سمندر کی نیند ٹوٹ گئی رات کچھ یوں ڈھلی سمندر میں غرق ہوتا گیا کوئی صحرا دھول اڑتی گئی سمندر میں کوئی طوفاں ضرور اٹھنا ...

    مزید پڑھیے

    کوئی منزل بھی نہیں ہے کوئی رستہ بھی نہیں

    کوئی منزل بھی نہیں ہے کوئی رستہ بھی نہیں اور سب محو سفر ہیں کوئی رکتا بھی نہیں ہر طرف بے رنگ سی گہری اداسی کا جماؤ ایک رنگیں خواب جو نظروں سے ہٹتا بھی نہیں کس طرح تھامے ہوئے ہیں خود کو اس بستی کے لوگ کوئی متوازن نہیں ہے اور پھسلتا بھی نہیں اک مسلسل سی یہ سعئ رائیگاں یہ ...

    مزید پڑھیے

    شہر بدلا ہوا سا لگتا ہے

    شہر بدلا ہوا سا لگتا ہے ہر کوئی اوپرا سا لگتا ہے مجھ کو اکثر خود اپنے اندر ہی کچھ بھٹکتا ہوا سا لگتا ہے جانے کیا بات ہے کہ گھر مجھ کو روز گرتا ہوا سا لگتا ہے مجھ کو ہر شخص اپنی بستی کا خود سے روٹھا ہوا سا لگتا ہے درد سے یوں نجات کب ہوگی وقت ٹھہرا ہوا سا لگتا ہے زخم کھائے ہوئے ...

    مزید پڑھیے