بدر عالم خلش کی غزل

    گم ہوئے جاتے ہیں دھڑکن کے نشاں ہم نفسو

    گم ہوئے جاتے ہیں دھڑکن کے نشاں ہم نفسو ہے در دل پہ کوئی سنگ گراں ہم نفسو رسنے لگتی ہیں جب آنکھوں سے تیزابی یادیں بات کرتے ہوئے جلتی ہے زباں ہم نفسو دل سے لب تک کوئی کہرام سا سناٹا ہے خود کلامی مجھے لے آئی کہاں ہم نفسو اک سبک موج ہے اک لوح درخشاں پہ رواں ہے تماشائی یہاں سارا جہاں ...

    مزید پڑھیے

    دمک اٹھی ہے فضا ماہتاب خواب کے ساتھ

    دمک اٹھی ہے فضا ماہتاب خواب کے ساتھ دھڑک رہا ہے یہ دل کس رباب خواب کے ساتھ ہٹے غبار جو لو سے تو میری جوت جگے جلوں میں پھر سے نئی آب و تاب خواب کے ساتھ ہے سو اداؤں سے عریاں فریب رنگ انا برہنہ ہوتی ہے لیکن حجاب خواب کے ساتھ تو کیوں سزا میں ہو تنہا گناہ گار کوئی یہاں تو جیتے ہیں سب ...

    مزید پڑھیے

    قدموں سے اتنا دور کنارہ کبھی نہ تھا

    قدموں سے اتنا دور کنارہ کبھی نہ تھا نا قابل عبور یہ دریا کبھی نہ تھا تم سا حسیں ان آنکھوں نے دیکھا کبھی نہ تھا لیکن یہ سچ نہیں کوئی تم سا کبھی نہ تھا ہے ذکر یار کیوں شب زنداں سے دور دور اے ہم نشیں یہ طرز غزل کا کبھی نہ تھا کمرے میں دل کے اس کے علاوہ کوئی نہیں حیران ہوں کہ ایسا ...

    مزید پڑھیے

    گوریوں نے جشن منایا میرے آنگن بارش کا

    گوریوں نے جشن منایا میرے آنگن بارش کا بیٹھے بیٹھے آ گئی نیند اصرار تھا یہ کسی خواہش کا چند کتابیں تھوڑے سپنے اک کمرے میں رہتے ہیں میں بھی یہاں گنجائش بھر ہوں کس کو خیال آرائش کا ٹھہر ٹھہر کر کوند رہی تھی بجلی باہر جنگل میں ٹرین رکی تو سرپٹ ہو گیا گھوڑا وقت کی تازش کا ٹیس پرانے ...

    مزید پڑھیے

    نشان‌ زخم پہ نشتر زنی جو ہونے لگی

    نشان‌ زخم پہ نشتر زنی جو ہونے لگی لہو میں ظلمت شب انگلیاں بھگونے لگی ہوا وہ جشن کہ نیزے بلند ہونے لگے نیام تیغ کی خنجر کے ساتھ سونے لگی جہاں میں دوڑ کے پہنچا تھا وہ گھنیری چھاؤں ذرا سی دیر میں زار و قطار رونے لگی ندی ڈباؤ نہ تھی ڈوبنا پڑا لیکن کنارے پہنچا تو شرمندگی ڈبونے ...

    مزید پڑھیے

    چپ تھے جو بت سوال بہ لب بولنے لگے

    چپ تھے جو بت سوال بہ لب بولنے لگے ٹھہرو کہ قوس برق و لہب بولنے لگے ویرانیوں میں ساز طرب بولنے لگے جیسے لہو میں آب عنب بولنے لگے اک رشتہ احتیاج کا سو روپ میں ملا سو ہم بھی اب بہ‌ طرز طلب بولنے لگے خاموش بے گناہی اکیلی کھڑی رہی کچھ بولنے سے پہلے ہی سب بولنے لگے پہلے تم اس موبائل ...

    مزید پڑھیے

    ضرورتوں کی ہماہمی میں جو راہ چلتے بھی ٹوکتی ہے وہ شاعری ہے

    ضرورتوں کی ہماہمی میں جو راہ چلتے بھی ٹوکتی ہے وہ شاعری ہے میں جس سے آنکھیں چرا رہا ہوں جو میری نیندیں چرا رہی ہے وہ شاعری ہے جو آگ سینے میں پل رہی ہے مچل رہی ہے بیاں بھی ہو تو عیاں نہ ہوگی مگر ان آنکھوں کے آبلوں میں جو جل رہی ہے پگھل رہی ہے وہ شاعری ہے تھا اک تلاطم مئے تخیل کے جام ...

    مزید پڑھیے

    کہیں صبح و شام کے درمیاں کہیں ماہ و سال کے درمیاں

    کہیں صبح و شام کے درمیاں کہیں ماہ و سال کے درمیاں یہ مرے وجود کی سلطنت ہے عجب زوال کے درمیاں ابھی صحن جاں میں بچھی ہوئی جو بہار ہے اسے کیا کہوں میں کسی عتاب کی زد میں ہوں تو کسی ملال کے درمیاں ہیں کسی اشارے کے منتظر کئی شہسوار کھڑے ہوئے کہ ہو گرم پھر کوئی معرکہ مرے ضبط حال کے ...

    مزید پڑھیے

    آسماں پر کالے بادل چھا گئے

    آسماں پر کالے بادل چھا گئے گھر کے اندر آئنے دھندلا گئے کیا غضب ہے ایک بھی کوئل نہیں سب بغیچے آم کے منجرا گئے گھٹتے بڑھتے فاصلوں کے درمیاں دفعتاً دو راستے بل کھا گئے ڈوبتا ہے آ کے سورج ان کے پاس وہ دریچے میرے دل کو بھا گئے شہر کیا دنیا بدل کر دیکھ لو پھر کہو گے ہم تو اب اکتا ...

    مزید پڑھیے