Babar Rahman Shah

بابر رحمان شاہ

بابر رحمان شاہ کی غزل

    دل نے ہم سے عجب ہی کام لیا

    دل نے ہم سے عجب ہی کام لیا ہم کو بیچا مگر نہ دام لیا دل سے آخر چراغ وصل بجھا کیا تمنا نے انتقام لیا پھر کبھی وہ نہ آئی ہم کو نظر جس پری رو کا ہم نے نام لیا تیری خاطر ہنوز ہم نے یہاں لاکھ الزام اپنے نام لیا تا دم مرگ عشق جیتا رہا گور میں بھی مرا سلام لیا

    مزید پڑھیے

    داستان غم تجھے بتلائیں کیا

    داستان غم تجھے بتلائیں کیا زخم سینے کے تجھے دکھلائیں کیا سوچتے ہیں بھول جائیں سرزنش مدتوں کی بات اب جتلائیں کیا لوگ اس کی بات تو سنتے نہیں خضر کو جنگل سے ہم بلوائیں کیا روز تم وعدہ نیا لے لیتے ہو پاس ان وعدوں کا ہم رکھ پائیں کیا مفلسی نے جا بجا لوٹا ہمیں اب بچا کچھ بھی نہیں ...

    مزید پڑھیے

    کسی کے جال میں آ کر میں اپنا دل گنوا بیٹھا

    کسی کے جال میں آ کر میں اپنا دل گنوا بیٹھا مجھے تھا عشق قاتل سے میں اپنا سر کٹا بیٹھا غضب کا سنگ دل آغاز سے ہی بے مروت تھا کہ جس سے دور رہنا تھا میں اس کے پاس جا بیٹھا مرا معبود تو عشق بتاں سے لاکھ افضل تھا مجھے کس سے لگانا تھا میں دل کس سے لگا بیٹھا

    مزید پڑھیے

    نہیں نہیں یہ مرا عکس ہو نہیں سکتا

    نہیں نہیں یہ مرا عکس ہو نہیں سکتا کسی کے سامنے میں یوں تو رو نہیں سکتا تھکن سے چور ہے سارا وجود اب میرا میں بوجھ اتنے غموں کا تو ڈھو نہیں سکتا تجھے غزل تو سناتا ہوں آج بابرؔ کی مگر میں اشکوں سے دامن بھگو نہیں سکتا

    مزید پڑھیے

    مان لو صاحبو کہا میرا

    مان لو صاحبو کہا میرا کیوں کہ عبرت ہے نقش پا میرا ہے تمنا میں غارت و رسوا شعر میرا، کتابچہ میرا اے پری زاد تیرے جانے پر ہو گیا خود سے رابطہ میرا جنگلوں سے مجھے یہ نسبت ہے ان میں رہتا تھا آشنا میرا عام سا آدمی ہوں میں صاحب شعر ہوتا ہے عام سا میرا

    مزید پڑھیے

    تم کو میں جب سلام کرتا ہوں

    تم کو میں جب سلام کرتا ہوں تب فغاں گام گام کرتا ہوں غنچہ و گل کی خستہ حالی کا ذکر میں صبح و شام کرتا ہوں بے ستوں کاٹ کر کھڑا ہوں میں کوہ کن جیسے کام کرتا ہوں آتش عشق جب جلاتی ہے جل کے میں نوش جام کرتا ہوں شعر ہوتا نہیں ہے جب بابرؔ اس کا کچھ اہتمام کرتا ہوں

    مزید پڑھیے