منا کر جشن اپنی بے بسی کا
منا کر جشن اپنی بے بسی کا اڑاتا ہوں تمسخر زندگی کا لہو کی چھینٹ ہر دیوار پر تھی لگا الزام پھر بھی خودکشی کا خدا سب کو بناتے جا رہے ہو تماشہ کر رہے ہو بندگی کا مری صف سے جو آگے کی صفیں ہیں نمایاں فاصلہ ہے مفلسی کا چلا کر پیٹھ پر خنجر یہ کس نے کیا ہے نام رسوا دشمنی کا نہ جانے راہ ...