Azhar Nawaz

اظہر نواز

نوجوان شاعروں میں شامل

One of the promising younger poets

اظہر نواز کی غزل

    نہ جانے شام نے کیا کہہ دیا سویرے سے

    نہ جانے شام نے کیا کہہ دیا سویرے سے اجالے ہاتھ ملانے لگے اندھیرے سے شجر کے حصے میں بس رہ گئی ہے تنہائی ہر اک پرندہ روانہ ہوا بسیرے سے جو اس کی بین کی دھن پر ہوا ہے رقص انداز ٹھنی رہی ہے اسی سانپ کی سپیرے سے ابھی یہ روشنی چبھتی ہوئی ہے آنکھوں میں ابھی ہم اٹھ کے چلے آئے ہیں ...

    مزید پڑھیے

    سلسلہ یوں بھی روا رکھا شناسائی کا

    سلسلہ یوں بھی روا رکھا شناسائی کا کوئی رشتہ تو رہے آنکھ سے بینائی کا تبصرہ خوب یہاں تیر کی رفتار پہ ہے تذکرہ کون کرے زخم کی گہرائی کا محترم کہہ کے مجھے اس نے پشیمان کیا کوئی پہلو نہ ملا جب مری رسوائی کا تنگ آ کر تری یادوں کو پرے جھٹکا ہے مرثیہ کون پڑھے روز کی تنہائی کا اپنے ...

    مزید پڑھیے

    زیست عنوان تیرے ہونے کا

    زیست عنوان تیرے ہونے کا دل کو ایمان تیرے ہونے کا مجھ کو ہر سمت لے کے جاتا ہے ایک امکان تیرے ہونے کا آ گیا وقت میرے بعد آخر اب پریشان تیرے ہونے کا آنکھ منظر بناتی رہتی ہے یعنی سامان تیرے ہونے کا میرا ہونا بھی ایک پہلو ہے ہاں مری جان تیرے ہونے کا

    مزید پڑھیے

    داغ چہرے کا یونہی چھوڑ دیا جاتا ہے

    داغ چہرے کا یونہی چھوڑ دیا جاتا ہے آئنہ ضد میں مگر توڑ دیا جاتا ہے تیری شہرت کے پس پردہ مرا نام بھی ہے تیری لغزش سے مجھے جوڑ دیا جاتا ہے کوئی کردار ادا کرتا ہے قیمت اس کی جب کہانی کو نیا موڑ دیا جاتا ہے اک توازن جو بگڑتا ہے کبھی روح کے ساتھ شیشۂ جسم وہیں پھوڑ دیا جاتا ہے

    مزید پڑھیے

    نیند پلکوں پہ یوں رکھی سی ہے

    نیند پلکوں پہ یوں رکھی سی ہے آنکھ جیسے ابھی لگی سی ہے اپنے لوگوں کا ایک میلہ ہے اپنے پن کی یہاں کمی سی ہے خوب صورت ہے صرف باہر سے یہ عمارت بھی آدمی سی ہے میں ہوں خاموش اور مرے آگے تیری تصویر بولتی سی ہے چارہ سازو مرا علاج کرو آج کچھ درد میں کمی سی ہے

    مزید پڑھیے

    پڑھیے سبق یہی ہے وفا کی کتاب کا

    پڑھیے سبق یہی ہے وفا کی کتاب کا کانٹے کرا رہے ہیں تعارف گلاب کا کیسا یہ انتشار دیوں کی صفوں میں ہے کچھ تو اثر ہوا ہے ہوا کے خطاب کا یہ طے کیا جو میں نے جنوں تک میں جاؤں گا یہ مرحلہ اہم ہے مرے اضطراب کا مانا بہت حسین تھا وہ عمر کا پڑاؤ قصہ مگر نہ چھیڑئیے عہد شباب کا اظہرؔ کہیں سے ...

    مزید پڑھیے

    ملتے جلتے ہیں یہاں لوگ ضرورت کے لئے

    ملتے جلتے ہیں یہاں لوگ ضرورت کے لئے ہم ترے شہر میں آئے ہیں محبت کے لئے وہ بھی آخر تری تعریف میں ہی خرچ ہوا میں نے جو وقت نکالا تھا شکایت کے لئے میں ستارہ ہوں مگر تیز نہیں چمکوں گا دیکھنے والے کی آنکھوں کی سہولت کے لئے تم کو بتلاؤں کہ دن بھر وہ مرے ساتھ رہا ہاں وہی شخص جو مشہور ہے ...

    مزید پڑھیے