Azhar Adeeb

اظہر ادیب

شاعر،انشائیہ نگار اور ادیب

Poet,Prosaist

اظہر ادیب کی غزل

    صبح کیسی ہے وہاں شام کی رنگت کیا ہے

    صبح کیسی ہے وہاں شام کی رنگت کیا ہے اب ترے شہر میں حالات کی صورت کیا ہے ایک آزار دھڑکتا ہے یہاں سینے میں اب تجھے کیسے بتائیں کہ محبت کیا ہے حکم دیتا ہے تو آواز لرز جاتی ہے جانے اب کے مرے سالار کی نیت کیا ہے یہ جو میں پیڑ اگانے میں لگا رہتا ہوں میں سمجھتا ہوں مری پہلی ضرورت کیا ...

    مزید پڑھیے

    روشنی حسب ضرورت بھی نہیں مانگتے ہم

    روشنی حسب ضرورت بھی نہیں مانگتے ہم رات سے اتنی سہولت بھی نہیں مانگتے ہم دشمن شہر کو آگے نہیں بڑھنے دیتے اور کوئی تمغۂ جرأت بھی نہیں مانگتے ہم سنگ کو شیشہ بنانے کا ہنر جانتے ہیں اور اس کام کی اجرت بھی نہیں مانگتے ہم کسی دیوار کے سائے میں ٹھہر لینے دے دھوپ سے اتنی رعایت بھی ...

    مزید پڑھیے

    پتا ہوں آندھیوں کے مقابل کھڑا ہوں میں

    پتا ہوں آندھیوں کے مقابل کھڑا ہوں میں گرتے ہوئے درخت سے کتنا بڑا ہوں میں پرچم ہوں روشنی کا مرا احترام کر تاریکیوں کا راستہ روکے کھڑا ہوں میں میرے ہرے وجود سے پہچان اس کی تھی بے چہرہ ہو گیا ہے وہ جب سے جھڑا ہوں میں مت سوچ یہ کہ میری کسی نے نہیں سنی یہ دیکھ اپنی بات پہ کتنا اڑا ...

    مزید پڑھیے

    دل پیاسا اور آنکھ سوالی رہ جاتی ہے

    دل پیاسا اور آنکھ سوالی رہ جاتی ہے اس کے بعد یہ بستی خالی رہ جاتی ہے بے خوابی کب چھپ سکتی ہے کاجل سے بھی جاگنے والی آنکھ میں لالی رہ جاتی ہے تیر ترازو ہو جاتا ہے آ کر دل میں ہاتھوں میں زیتون کی ڈالی رہ جاتی ہے دھوپ سے رنگ اور ہوا سے کاغذ اڑ جاتے ہیں ذہن میں اک تصویر خیالی رہ جاتی ...

    مزید پڑھیے

    اپنا جیسا بھی حال رکھا ہے

    اپنا جیسا بھی حال رکھا ہے تیرے غم کو نہال رکھا ہے شاعری کیا ہے ہم نے جینے کا ایک رستہ نکال رکھا ہے ہم نے گھر کی سلامتی کے لئے خود کو گھر سے نکال رکھا ہے میرے اندر جو سرپھرا ہے اسے میں نے زنداں میں ڈال رکھا ہے ایک چہرہ ہے ہم نے جس کے لئے آئنوں کا خیال رکھا ہے اس برس کا بھی نام ہم ...

    مزید پڑھیے

    جگہ پھولوں کی رکھتے ہیں گھنا سایہ بناتے ہیں

    جگہ پھولوں کی رکھتے ہیں گھنا سایہ بناتے ہیں چلو اپنے خیالی شہر کا نقشہ بناتے ہیں ابھی تو چاک پر ہیں کیا کہیں ہم اپنے بارے میں نہ جانے دست کوزہ گر ہمیں کیسا بناتے ہیں بنانی ہے ہمیں تصویر دل کاغذ پہ لیکن ہم کبھی دریا بناتے ہیں کبھی صحرا بناتے ہیں غزل اس کے لئے کہتے ہیں لیکن ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2