Ayub Sabir

ایوب صابر

ایوب صابر کی غزل

    یہ کس مقام پہ پہنچا ہے کاروان وفا (ردیف .. ن)

    یہ کس مقام پہ پہنچا ہے کاروان وفا ہے ایک زہر سا پھیلا ہوا فضاؤں میں نشان راہ کی رکھتے تو ہیں خبر لیکن زباں پہ تالے ہیں اور بیڑیاں ہیں پاؤں میں پھرے ہیں مدتوں انسان کی تلاش میں ہم وہ شہر میں نظر آیہ ہمیں نہ گاؤں میں سر نیاز بھی اپنا کبھی نہ خم ہوگا جھلک غرور کی ہے آپ کی اداؤں ...

    مزید پڑھیے

    متاع فکر و نظر رہا ہوں

    متاع فکر و نظر رہا ہوں مثال خوشبو بکھر رہا ہوں میں زندگانی کے معرکے میں ہمیشہ زیر و زبر رہا ہوں شفق ہوں سورج ہوں روشنی ہوں صلیب غم پر ابھر رہا ہوں سجاؤ رستے بچھاؤ کانٹے کہ پا برہنہ گزر رہا ہوں نہ زندگی ہے نہ موت ہے یہ نہ جی رہا ہوں نہ مر رہا ہوں جو میرے اندر چھپا ہوا ہے اس آدمی ...

    مزید پڑھیے