خواہشیں دنیا کی بار دوش و گردن ہو گئیں
خواہشیں دنیا کی بار دوش و گردن ہو گئیں رفتہ رفتہ منزل عقبیٰ کی رہزن ہو گئیں یہ ہوا کیسی چلی اس تنگنائے دہر میں شہر جنگل ہو گئے آبادیاں بن ہو گئیں چل سوئے گور غریباں اے حریص مال و زر دیکھ کتنی آرزوئیں نذر مدفن ہو گئیں کیسی رنگا رنگ شکلیں ہوں گی اے جوش بہار مٹ کے جو گلگونۂ ...