چوب صحرا بھی وہاں رشک ثمر کہلائے
چوب صحرا بھی وہاں رشک ثمر کہلائے ہم خزاں بخت شجر ہو کے حجر کہلائے ہم تہ خاک کئے جاں کا عرق ان کے لئے اور پس راہ وفا گرد سفر کہلائے ان کی پوروں میں ستارے بھی ہیں انگارے بھی وہ صدف جسم ہوئے آتش تر کہلائے اپنی راہوں کا گلستان لگے ویرانہ ان کی دہلیز کی مٹی بھی گہر کہلائے جن کی ...