آسماں گردش میں تھا ساری زمیں چکر میں تھی
آسماں گردش میں تھا ساری زمیں چکر میں تھی زلزلے کے قہر کی تصویر ہر منظر میں تھی آپسی ٹکراؤ نے آخر نمایاں کر دیا ایک چنگاری جو برسوں سے دبی پتھر میں تھی میں اکیلا مر رہا تھا گھر مرا سنسان تھا رونق خانہ رفیق زندگی دفتر میں تھی کر دیا تھا بیوگی کے کرب نے گرچہ نڈھال جلتی بجھتی آنچ ...