عتیق اثر کی غزل

    غم یہ نہیں کہ غم سے ملاقات ہوئی

    غم یہ نہیں کہ غم سے ملاقات ہوئی غم ہے کہ راہ غم میں خرافات ہو گئی میں اہتمام مجلس آداب میں رہا کیوں لوگ اٹھ گئے ہیں یہ کیا بات ہو گئی ماحول جب تمازت خورشید میں ہوا رت جانے کیوں بدل گئی برسات ہو گئی وہ واقعہ جو روح کی گہرائیوں میں تھا وہ بات اب تو نذر حکایات ہو گئی تنہا تھی میری ...

    مزید پڑھیے

    حرف لرزاں ہیں کہ ہونٹوں پہ وہ آئیں کیسے؟

    حرف لرزاں ہیں کہ ہونٹوں پہ وہ آئیں کیسے؟ راہ میں آہوں کے شعلے ہیں بجھائیں کیسے؟ وضع داری کے وہ پہرے ہیں کہ اے جذبۂ دل سنگ اور آئنہ اک ساتھ اٹھائیں کیسے؟ وہ مناظر جو طبیعت کو جواں رکھتے ہیں اے خزاں اب ترے ہاتھوں سے بچائیں کیسے؟ خشک آنکھوں میں اترنے سے بھلا کیا ہوگا دل ہے صد ...

    مزید پڑھیے

    قریب سے نہ گزر انتظار باقی رکھ

    قریب سے نہ گزر انتظار باقی رکھ قرابتوں کا مگر اعتبار باقی رکھ بکھرنا ہے تو فضا میں بکھیر دے خوشبو حیا نظر میں قدم میں وقار باقی رکھ ہمیں ہمارے ہی خوابوں سے کون روکے گا کھینچا ہوا ہے جو خط حصار باقی رکھ ترا وجود عبارت ہے خوش ادائی سے کشیدہ قامتیٔ خوش گوار باقی رکھ خزاں سے صلح ...

    مزید پڑھیے

    گھٹا زلفوں کی جب سے اور کالی ہوتی جاتی ہے

    گھٹا زلفوں کی جب سے اور کالی ہوتی جاتی ہے رخ روشن کی تابانی مثالی ہوتی جاتی ہے مرے بخت سیہ کے حاشیے پر روشنی سی ہے مری تاریک شب کچھ پھر اجالی ہوتی جاتی ہے اٹھے جاتے ہیں دیدہ ور سبھی آہستہ آہستہ یہ دنیا معتبر لوگوں سے خالی ہوتی جاتی ہے وہ میری انجمن پر رنگ برساتے ہیں کچھ ایسا کہ ...

    مزید پڑھیے

    شکایت ہے بہت لیکن گلا اچھا نہیں لگتا

    شکایت ہے بہت لیکن گلا اچھا نہیں لگتا دلوں کی بات ہے کم حوصلہ اچھا نہیں لگتا نمی آنکھوں میں سوز دل کا عنوان تکلم ہے مگر خاموش اشکوں کا صلہ اچھا نہیں لگتا ادھر آنا نہ جانا ہی ادھر گم کردہ راہی ہے تذبذب کا مجھے یہ مرحلہ اچھا نہیں لگتا مسرت اور غم دونوں کی کوئی حد ضروری ہے کسی بھی ...

    مزید پڑھیے