عتیق احمد کی غزل

    کھلے ہیں پھول اسی رنگ کی ستائش میں

    کھلے ہیں پھول اسی رنگ کی ستائش میں جو بے مثال رہا آپ اپنی تابش میں وہ ایک دن ہی مری زندگی کا حاصل ہے کہ میرے پاس کوئی رک گیا تھا بارش میں بس ایک جھیل ہے اور پیڑ کا گھنا سایا سلگ رہے ہیں کئی لوگ جن کی خواہش میں کبھی ہوا جو کہیں پر غزل سرا میں بھی تو میرے یار جلے ہیں حسد کی آتش ...

    مزید پڑھیے

    شجر سے مل کے جو رونے لگا تھا

    شجر سے مل کے جو رونے لگا تھا پرندہ ڈار سے بچھڑا ہوا تھا ٹھہرتا ہی نہ تھا دریا کہیں پر مگر تصویر میں دیکھا گیا تھا میں تشنہ لب اگرچہ لوٹ آیا مگر دریا کو یہ مہنگا پڑا تھا درون دل خلش ایسی کھلی تھی کہ جس کا رنگ چہرے پر اڑا تھا میں جب نکلا تمنا کے سفر پر مرے رستے میں اک صحرا پڑا ...

    مزید پڑھیے

    میں اپنی سوچوں میں ایک دریا بنا رہا تھا

    میں اپنی سوچوں میں ایک دریا بنا رہا تھا جو ٹوٹی پھوٹی سی کشتیوں کو چلا رہا تھا تمہارے جانے کے بعد بالکل ہنسا نہیں میں شکستہ پا ہو کے اپنے اندر کو کھا رہا تھا وہ بند کمرے میں میری یادیں پرو رہی تھی میں بزم امکاں سے خواب جس کے اٹھا رہا تھا مری نگہ میں یہ ایک منظر رکا ہوا ہے کہ ایک ...

    مزید پڑھیے

    آئی ہے جانے کیسے علاقوں سے روشنی

    آئی ہے جانے کیسے علاقوں سے روشنی اور ڈھونڈھتی ہے کس کو زمانوں سے روشنی ہو کر رہی وہ ایک زمانے پہ منکشف دیوار سے رکی نہ دریچوں سے روشنی موج یقیں کے ہاتھ نہ آئی تمام عمر وہ لو جسے ملی ہے گمانوں سے روشنی کرتے ہیں آج اس پہ مہ و آفتاب رشک آنکھوں کو جو ملی ترے خوابوں سے روشنی مہکی ...

    مزید پڑھیے

    میں اپنی خاک کو جب آئنہ بناتا ہوں

    میں اپنی خاک کو جب آئنہ بناتا ہوں تو اس کے واسطے دل بھی نیا بناتا ہوں ہر اک پرند رہے تا ابد یہاں شاداب اسی لئے میں شجر بھی ہرا بناتا ہوں بھٹک نہ جائے کہیں شہر غم میں اپنا دل سو تیرے خواب کو میں رہنما بناتا ہوں کرے نہ کیوں یہ ترے دل میں گھر مرے ہمدم میں اپنے شعر کو درد آشنا بناتا ...

    مزید پڑھیے