Aslam Emadi

اسلم عمادی

  • 1948

اسلم عمادی کے تمام مواد

7 غزل (Ghazal)

    کوئی اشارہ کوئی استعارہ کیوں کر ہو

    کوئی اشارہ کوئی استعارہ کیوں کر ہو اب آسمان سخن پر ستارہ کیوں کر ہو اب اس کے رنگ میں ہے بیشتر تغافل سا اب اس سے طور شناسی کا چارہ کیوں کر ہو وہ سچ سے خوش نہ اگر ہو تو جھوٹ بولیں گے کہ وہ جو روٹھے تو اپنا گزارہ کیوں کر ہو انہیں یہ فکر کہ دل کو کہاں چھپا رکھیں ہمیں یہ شوق کہ دل کا ...

    مزید پڑھیے

    خود اپنی چال سے نا آشنا رہے ہے کوئی

    خود اپنی چال سے نا آشنا رہے ہے کوئی خرد کے شہر میں یوں لاپتا رہے ہے کوئی چلا تو ٹوٹ گیا پھیل ہی گیا گویا پہاڑ بن کے کہاں تک کھڑا رہے ہے کوئی نہ حرف نفی نہ چاک ثبات درماں ہے ہر اک فریب کے اندر چھپا رہے ہے کوئی کھڑی ہیں چاروں طرف اپنی بے گنہ سانسیں صدائے درد کے اندر گھرا رہے ہے ...

    مزید پڑھیے

    وہ شب غم جو کم اندھیری تھی

    وہ شب غم جو کم اندھیری تھی وہ بھی میری انا کی سبکی تھی غم مری زندگی میں ٹوٹ گرا ورنہ یہ شور دار ندی تھی دن بھی شب رنگ بن گئے اپنے پہلے سورج سے آنکھ ملتی تھی کیا مقالات عاشقی پڑھتے بزم میں ہم نے آہ کھینچی تھی جل رہے تھے ہرے بھرے جنگل ایسی بے وقت آگ پھیلی تھی میں کھڑا تھا اکھڑتے ...

    مزید پڑھیے

    تمام کھیل تماشوں کے درمیان وہی

    تمام کھیل تماشوں کے درمیان وہی وہ میرا دشمن جاں یعنی مہربان وہی ہزار راستے بدلے ہزار سوانگ رچے مگر ہے رقص میں سر پر اک آسمان وہی سبھی کو اس کی اذیت کا ہے یقین مگر ہمارے شہر میں ہے رسم امتحان وہی تمہارے درد سے جاگے تو ان کی قدر کھلی وگرنہ پہلے بھی اپنے تھے جسم و جان وہی وہی ...

    مزید پڑھیے

    کوشش ہے گر اس کی کہ پریشان کرے گا

    کوشش ہے گر اس کی کہ پریشان کرے گا وہ دشمن جاں درد کو آسان کرے گا ہم اس کو جوابوں سے پشیمان کریں گے وہ ہم کو سوالوں سے پشیمان کرے گا پہلو تہی کرتے ہوئے دزدیدہ جو دیکھے چہرے کے تأثر سے وہ حیران کرے گا تو چھپ کے ہی آئے کہ برافگندہ نقاب آئے دل کی یہی عادت ہے کہ نقصان کرے گا قزاقوں ...

    مزید پڑھیے

تمام

7 نظم (Nazm)

    نرم آوازوں کے بیچ

    نرم آوازوں سے اک نیلی خموشی ہے رواں یک بہ یک اڑ گئے وہ کالے پرند جن کے سایوں سے شعاعوں میں تھی اک بے خوابی اب وہی خفتہ مزاجی وہی بے حرف خمار نرم آوازوں کی تھپکی سے یہ سب ہوش و حواس اپنے اظہار کے بہتے ہوئے دریا کی جگہ برف کی جھیل بنے چیخ جو نغمۂ آزاد سی لہراتی تھی نغمہ میں غرق ...

    مزید پڑھیے

    موت کا انتظار سفید چاک سے

    موت کا انتظار سفید چاک سے آسمان کے سیاہ ماتھے پر دو نام ایک اللہ کا ایک رسول کا پھر سفید چاک دونوں ہونٹوں کے درمیان اس کا دودھ شیر اور شہد ملا بائیں جانب مڑ کر ایک دیوار پر کارل مارکس کا نام اس پر اگی ہوئیں خوفناک زبانیں اور اس کے اطراف کھلے ہو بجلی کے تار سانپ لپلپاتے ...

    مزید پڑھیے

    انتظار

    کبھی تم ہنس پڑو کبھی میں ہنس رہوں کہ ہم سب ایک ہی ڈالی پہ اپنے اپنے لمحے میں مہکنے اور مرجھانے کی خاطر پھول ہیں جدھر آ جائے موج روح پرور پتیاں چمکیں فضا مہکے مگر کب آئے کس جانب یہ گہرا راز ہے شاید کبھی چلتے ہوے دھارے میں کوئی سبزہ اگ آئے کوئی آواز خاموشی میں اپنے پر ہلائے مگر ...

    مزید پڑھیے

    شام کا رقص

    یک بہ یک دھوپ نیچے گری جیسے چینی کی اک طشتری ہاتھ خاموش ساعت کے آگے لرزنے لگا اور کہنے سے ہونٹوں کے اندر چھپی برق آ کر چمکنے لگی آشیاں جل گیا شام کا رقص میدان ہنگامۂ خوف میں گرم ہوتا رہا پنکھڑی پنکھڑی قطرہ قطرہ اترتا رہا میں کہ دیوار کے سامنے دھوپ کا تیز جھونکا بنوں آگ کے ...

    مزید پڑھیے

    کھوکھلے برتن کے ہونٹ

    کھوکھلے برتن کے ہونٹ صدا کے کھوکھلے بت پر وہ اپنی انگلیاں گھستے رہیں گے اندھیرے نرخرے سے بس ہوا کی رفت و آمد کا نشاں معلوم ہوتا ہے زباں پر سبز دھبے پڑتے جائیں گے چمکتے سبز دھبوں میں ٹھٹھرتے آئینے نیلی دعاؤں کے کوئی یہ ان سے کہہ دو کہ آوازیں کھڑکنے کے سوا یا دھڑدھڑانے شور اٹھنے ...

    مزید پڑھیے

تمام