اشرف شاد کی غزل

    چاند تاروں سے بھرا یہ آسماں دے جاؤں گا

    چاند تاروں سے بھرا یہ آسماں دے جاؤں گا خود رہوں گا دھوپ میں اور سائباں دے جاؤں گا میرے اچھے ہم سفر تجھ کو بھی میں جاتے ہوئے راہ سے بھٹکا ہوا اک کارواں دے جاؤں گا ہیں زلیخائیں بہت کوئی بھی یوسف ہو تو میں مصر کے بازار میں اس کو دکاں دے جاؤں گا جس نے توڑا دل مرا اور خواب کرچی کر ...

    مزید پڑھیے

    جو زندگی بچی ہے اسے خار کیا کریں

    جو زندگی بچی ہے اسے خار کیا کریں ہم بھی تمہارے ہوتے مگر یار کیا کریں ہیں بند سب دکانیں کہ بازار عشق میں ملتا نہیں ہے ہم سا خریدار کیا کریں لڑتے رہے ہوا سے جلاتے رہے چراغ اب اور روشنی کے طلب گار کیا کریں احباب چل دیے ترے دربار کی طرف اور ہم کہ آ گئے ہیں سر دار کیا کریں سیدھی سی ...

    مزید پڑھیے

    نکلی وہ زندگی سے تو پامال ہو گیا

    نکلی وہ زندگی سے تو پامال ہو گیا جیسے رواں رواں مرا کنگال ہو گیا بگڑا ہوا ہے ہجر میں کچھ وقت کا نظام لمحہ گزر نہ پایا کہ اک سال ہو گیا مشکل ہے یہ حساب کئی ہجرتوں کے بعد اچھا ہے میرا حال کہ بد حال ہو گیا بس یوں ہی اک غزل سی اسے دیکھ کر ہوئی پھر اس کے بعد پیار کا جنجال ہو گیا میں جب ...

    مزید پڑھیے

    تھیں زمینیں گم شدہ اور آسماں ملتا نہ تھا

    تھیں زمینیں گم شدہ اور آسماں ملتا نہ تھا سر پہ سورج تھا مرے پر سائباں ملتا نہ تھا بے نتیجہ ہی رہی ہے ہر سفر کی جستجو ڈھونڈنے نکلے تھے جس کو وہ جہاں ملتا نہ تھا منزلیں آسان تھیں اور راستے مخدوش تھے کشتیاں موجود تھیں پر بادباں ملتا نہ تھا گھونسلے خالی پڑے ہیں اور وہیں پر آس ...

    مزید پڑھیے

    دے آیا اپنی جان بھی دربار عشق میں

    دے آیا اپنی جان بھی دربار عشق میں پھر بھی نہ بن سکا خبر اخبار‌ عشق میں جب مل نہ پایا اس سے مجھے اذن گفتگو میں اک کتاب بن گیا اظہار عشق میں قیمت لگا سکا نہ خریدار پھر بھی میں جنس وفا بنا رہا بازار عشق میں شاید یہی تھی اس کی محبت کی انتہا مجھ کو بھی اس نے چن دیا دیوار عشق میں تہہ ...

    مزید پڑھیے

    ان سے ملا تو پھر میں کسی کا نہیں رہا

    ان سے ملا تو پھر میں کسی کا نہیں رہا اور جب بچھڑ گیا تو خود اپنا نہیں رہا دیوار ٹوٹنے کا عجب سلسلہ چلا سایوں کے سر پہ اب کوئی سایہ نہیں رہا ہر اک مکاں سے نام کی تختی اتر گئی دل کی فصیل پہ کوئی پہرہ نہیں رہا رہبر بدل گئے کبھی رہزن بدل گئے اور ہم سفر بھی کوئی پرانا نہیں رہا اب اس ...

    مزید پڑھیے

    اس کی جدائی کیسے کمالات کر گئی

    اس کی جدائی کیسے کمالات کر گئی وہ خواب بن کے مجھ سے ملاقات کر گئی دیکھا اسے جو میں نے تو کچھ بھی نہ سن سکا کیا بات کر رہی تھی وہ کیا بات کر گئی نادیدہ منزلوں کے لیے راستوں کی دھول جب کہکشاں بنی تو کرامات کر گئی راتوں سے چھین کر وہ چراغوں کی روشنی جب صبح ہو گئی تو اسے رات کر ...

    مزید پڑھیے