Asghar Nadeem Sayed

اصغر ندیم سید

ممتاز پاکسانی ڈراما نگاراور شاعر،"چاند گرہن" جیسے ٹی وی سیریل کے لیے مشہور

Notable Pakistani playwright known for penning a popular drama 'Chaand Garhan' for television

اصغر ندیم سید کی نظم

    دل جاری ہے

    اے دوست! کبھی تو آ کے مل یہ دل تیرے لیے جاری ہے دل جاری ہے دل آٹھ پہر سے جاری ہے جیسے کوئی دریا ساون میں جیسے کوئی برکھا جاڑے میں ایسے میں بدری کاری ہے دل جاری ہے دل آٹھ پہر سے جاری ہے کبھی دل دو گنا ہو جاتا ہے جب تیرا درد سماتا ہے ہر سانس میں رس مل جاتا ہے تیرے ہونے کا تیرے نیند نگر ...

    مزید پڑھیے

    دن پھیلا ہے

    بانسری کی دھن سے چاول کی بالی تک دن پھیلا ہے اور درانتی والے ہاتھ میں اس کا دامن جیسے ملاحوں کے ہاتھ میں جال ہو یا پھر گھوڑ سوار کے ہاتھ میں اس کی راسیں دن پھیلا ہے دہی بلونے کی آواز سے جامن کے پیڑوں تک چوڑیاں پہننے والے ہاتھ میں اس کا دامن کھنچتے کھنچتے اوڑھنی بن جائے گا دن پھیلا ...

    مزید پڑھیے

    جب ہم دونوں جدا ہوئے تھے

    جب ہم دونوں جدا ہوئے تھے اس نے پہنی سرما کی راتوں میں نکلے چاند کی ساڑی میں نے پہنا اپنی بن باسی کا چولا اس نے مانگی دھوپ جو برفوں پر چمکی تھی اور ہنسی کے دریا میں بہتے ہوئے ہم تک پہنچی تھی میں نے مانگی گھاس میں گری ہوئی آواز اس کے ہاتھ میں آٹھ پہر کے خواب کا چھوٹا بچہ تھا میرے ہاتھ ...

    مزید پڑھیے

    تاریخ ایک خاموش زمانہ

    یہ ساٹھ صدی کا قصہ ہے یہ ساٹھ برس کی بات نہیں تاریخ نے جب آنکھیں کھولیں سب پانی تھا پھر پانی پر تصویر بنی تصویر زمیں پر پھیل گئی اور اس پر بارش ٹوٹ پڑی اک بیج کہیں پر ساٹھ صدی کی آہٹ سے بیدار ہوا جنگل بن کر پھیل گیا وہیں کہیں پر میں بھی تھا تم بھی تھیں تاریخ نے دستک دی تھی تاریخ ...

    مزید پڑھیے

    اے خاموشی

    اے خاموشی! میرے خون میں چھپ کے بیٹھ دلہن بن کے میرے چہرے پر شرما آج کی شب اس خون میں دریا روئیں گے اور بچے شور مچائیں گے اے خاموشی! کفن ہو جیسے رنگت سے محروم تجھ میں بھی کچھ ایسی بے لفظی کا موسم پھیلے تو بھی دم توڑے میری آنکھوں میں ان سانپوں میں جو سانسوں میں پھنکارتے ہیں اے خاموشی! ...

    مزید پڑھیے

    شہر بدر

    شام کا پنجرہ میرے جسم پہ گر جاتا ہے اور میں درجہ دوم کا قیدی دشمن کے اخبار سے پوری دنیا کے لوگوں کی بگڑتی شکلیں دیکھنے لگتا ہوں اور سورج کی آزادی میرے جینے کی خواہش کو اپنا دوست بنانے آ جاتی ہے میرے ناشتے کے برتن میں میری محبت کے برسوں کا سارا ذائقہ بھر جاتا ہے سگریٹ کے ہر کش سے ...

    مزید پڑھیے

    چھٹی کا دن

    اگر رات اور صبح میں فرق کوئی نہیں ہے ہوا میں پرندوں کے ٹوٹے ہوئے پر بکھرنے لگے ہیں زمینوں پہ احکام کے لمبے چابک سے تاریخ داں اپنی گردن جھکائے ہوئے ہیں نصیبوں کی آواز میں وقت ڈھلنے لگا ہے تو پھر! نظم لکھنے کی خواہش گنہ گار انصاف کے فیصلوں سے زیادہ بری تو نہیں ہے اگر موسموں کی رگوں ...

    مزید پڑھیے

    ابھی کچھ دن لگیں گے

    ابھی کچھ دن لگیں گے خواب کو تعبیر ہونے میں کسی کے دل میں اپنے نام کی شمع جلانے میں کسی کے شہر کو دریافت کرنے میں کسی انمول ساعت میں کسی ناراض ساتھی کو ذرا سا پاس لانے میں ابھی کچھ دن لگیں گے درد کا پرچم بنانے میں پرانے زخم پہ مرہم لگانے میں محبت کی کویتا کو ہوا کے رخ پہ لانے ...

    مزید پڑھیے

    محبت کی نظم

    میری باتیں جیسے دھوپ ہو سرما کی دالانوں میں برفیں تیری خاموشی کی جن کے نیچے ہاتھ ہمارے مضبوطی سے جڑے ہوئے ہیں ساری بستیاں میرے تیرے قیام کو ترسیں ہم مہمان بنیں تو ان کی بوڑھی گائیں خشک تھنوں سے دودھ اتاریں ان کے بچے اپنے باپ کا کہنا مانیں ان کے پرندے چھتوں پہ بیٹھ کے پر ...

    مزید پڑھیے

    میں گرتا ہوں

    جب میں خوابوں کی سطح سے گرتا ہوں وہ ہنستے ہیں اور آسمان کی بجلی ان کے دانتوں میں پھنس جاتی ہے جب تیس دنوں کی سیڑھی سے ہر ماہ میں نیچے گرتا ہوں وہ ہنستے ہیں اور ان کے ہاتھ میں میرے بدن کی مٹی ہے جب کچی سیاہی اور قینچی سے لکھے ہوئے اخبار سے نیچے گرتا ہوں وہ ہنستے ہیں اور ان کے ہاتھ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 3