Asghar Gorakhpuri

اصغر گورکھپوری

اصغر گورکھپوری کی غزل

    اک عمر مہ و سال کی ٹھوکر میں رہا ہوں

    اک عمر مہ و سال کی ٹھوکر میں رہا ہوں میں سنگ سہی پھر بھی سر راہ وفا ہوں آپ اپنے ہی ناکردہ گناہوں کی سزا ہوں آواز ہوں لیکن ترے ہونٹوں سے جدا ہوں کیا کم ہے کہ رسوائے جہاں ہوں تری خاطر میں داغ ہوں لیکن ترے ماتھے پہ سجا ہوں پانی میں نظر آتی ہے اک چاند سی صورت پیاسا ہوں مگر دیر سے ...

    مزید پڑھیے

    ہم دشت سے ہر شام یہی سوچ کے گھر آئے

    ہم دشت سے ہر شام یہی سوچ کے گھر آئے شاید کہ کسی شب ترے آنے کی خبر آئے معلوم کسے شہر طلسمات کا رستہ کچھ دور مرے ساتھ تو مہتاب سفر آئے اس پھول سے چہرے کی طلب راحت جاں ہے پھینکے کوئی پتھر بھی تو احساں مرے سر آئے تا پھر نہ مجھے تیرہ نصیبی کا گلا ہو یہ صبح کا سورج مری آنکھوں میں اتر ...

    مزید پڑھیے

    چلتے چلتے رک جاتا ہے

    چلتے چلتے رک جاتا ہے دیوانہ کچھ سوچ رہا ہے اس جنگل کا ایک ہی رستہ جس پر جادو کا پہرا ہے دور گھنے پیڑوں کا منظر مجھ کو آوازیں دیتا ہے دم لوں یا آگے بڑھ جاؤں سر پر بادل کا سایا ہے اس ظالم کی آنکھیں نم ہیں پتھر سے پانی رستا ہے بھیگا بھیگا صبح کا آنچل رات بہت پانی برسا ہے

    مزید پڑھیے

    آنکھوں کی ندی سوکھ گئی پھر بھی ہرا ہے

    آنکھوں کی ندی سوکھ گئی پھر بھی ہرا ہے وہ درد کا پودا جو مرے دل میں اگا ہے جاں دے کے بھی چاہوں تو اسے پا نہ سکوں میں وہ چاند کا ٹکڑا جو دریچے میں جڑا ہے سیلاب ہیں چہروں کے تو آواز کے دریا یہ شہر تمنا تو نہیں دشت‌ صدا ہے اصغرؔ یہ سفر شوق کا اب کیسے کٹے گا جو ہم نے تراشا تھا وہ بت ٹوٹ ...

    مزید پڑھیے