Arshi Bhopali

عرشی بھوپالی

عرشی بھوپالی کی غزل

    خلوص الفاظ کام آیا نگاہ اہل فتن سے پہلے

    خلوص الفاظ کام آیا نگاہ اہل فتن سے پہلے نوید دل نے مجھے پکارا صدائے دار و رسن سے پہلے وجود چرخ کہن سے پہلے قیام دار و رسن سے پہلے ہمیں تھے تیرے چمن کی زینت بہار حسن چمن سے پہلے سکوت غم کی ادا ادا کو سمجھ سکیں کاش اہل عالم اشارہ ہائے لطیف بھی ہیں جبیں پہ نقش شکن سے پہلے بہار بے ...

    مزید پڑھیے

    رقص آشفتہ سری کی کوئی تدبیر سہی

    رقص آشفتہ سری کی کوئی تدبیر سہی لو مرے پاؤں میں اک اور بھی زنجیر سہی امتحاں اس دل پر شوق کا کرتے رہیے اور اس جرم وفا پر کوئی تعزیر سہی طعن و دشنام سے دیوانے نہ باز آئیں گے کوئی الزام سہی تہمت تقصیر سہی ہم تو آوارۂ صحرا ہیں ہمیں کیا مطلب ان کی محفل میں جنوں کی کوئی توقیر سہی ہر ...

    مزید پڑھیے

    درد کے سانچے میں ڈھل کر رہ گئی

    درد کے سانچے میں ڈھل کر رہ گئی زندگی کروٹ بدل کر رہ گئی وقت نظارہ نگاہ باریاب ان کے جلووں میں مچل کر رہ گئی آنکھ میں آنسو مچل کر رہ گئے موج دریا میں اچھل کر رہ گئی کیا کیا اے بلبل آتش نوا آشیاں میں برق جل کر رہ گئی ان کا غم مجھ کو ودیعت ہو گیا ساری دنیا ہاتھ مل کر رہ گئی

    مزید پڑھیے

    نہ صحرا ہے نہ اب دیوار و در ہے

    نہ صحرا ہے نہ اب دیوار و در ہے چمن میں نغمہ گر ساز سحر ہے سراغ کاروان رنگ و بو سے صبا آوارۂ گرد سفر ہے اسیرو اب در زنداں کرو باز سر ناخن کوئی عقد گہر ہے ندیمو داد دو اہل جنوں کو نمکداں زخم پا ہے زخم سر ہے

    مزید پڑھیے

    تمام حسن جہاں کا جواب ہو کے رہا

    تمام حسن جہاں کا جواب ہو کے رہا جو درد دل سے اٹھا آفتاب ہو کے رہا وہ بارگاہ جنوں ہے نصیب عشق وفا یہ دل یہ شوق نظر باریاب ہو کے رہا وہی سفر ہے وہی رسم آبلہ پائی یقین راہ مرا کامیاب ہو کے رہا بہت عزیز نہ کیوں ہو کہ درد ہے تیرا یہ درد بڑھ کے رہا اضطراب ہو کے رہا عجیب چیز ہے یہ شوق ...

    مزید پڑھیے

    فلسفی کس لیے الزام فنا دیتا ہے

    فلسفی کس لیے الزام فنا دیتا ہے لفظ کن خود مری ہستی کا پتہ دیتا ہے ہو گیا ترک مراسم کو زمانہ لیکن آج تک دل تری نظروں کو دعا دیتا ہے تھرتھراتے ہوئے ہاتھوں سے دوا کے بدلے چارہ گر آج نہ جانے مجھے کیا دیتا ہے کچھ تو ہوتا ہے حسینوں کو بھی احساس جمال اور کچھ عشق بھی مغرور بنا دیتا ...

    مزید پڑھیے

    نگاہ تیز شعور بلند رکھتے ہیں

    نگاہ تیز شعور بلند رکھتے ہیں ہم اپنا عشق بہت ہوش مند رکھتے ہیں ہم اپنے ساتھ دل درد مند رکھتے ہیں کوئی ہو بزم اسے سر بلند رکھتے ہیں ہمیں غرض نہیں منعم ہے کون حاتم کون کلاہ قیس سر ارجمند رکھتے ہیں رفیقوں تم ہی نہیں پاسبان شرط وفا کہ ہم بھی ان سے ارادت دو چند رکھتے ہیں

    مزید پڑھیے

    متاع شوق تو ہے درد روزگار تو ہے

    متاع شوق تو ہے درد روزگار تو ہے اگر بہار نہیں عشرت بہار تو ہے ادائے چاک گریباں سے با خبر نہ سہی جنون شوق کو فردا کا اعتبار تو ہے ترس رہے ہیں دل و جاں جو رنگ و بو کے لئے مرے نصیب میں اک دشت انتظار تو ہے کہاں نصیب ہوس کو جنوں کی آرائش لہو لہو ہے گریبان تار تار تو ہے ان آبلوں کو ...

    مزید پڑھیے

    کارواں تیرہ شب میں چلتے ہیں

    کارواں تیرہ شب میں چلتے ہیں آندھیوں میں چراغ جلتے ہیں لاکھ زنداں ہوں لاکھ دار و رسن اب ارادے کہیں بدلتے ہیں کس ادا سے سحر کے دیوانے سرخ پرچم لیے نکلتے ہیں روک سکتا ہے کیا انہیں صیاد جو قفس توڑ کر نکلتے ہیں کتنی صدیوں سے ذہن انساں میں رنگ و نکہت کے خواب پلتے ہیں

    مزید پڑھیے

    نشیلی چھاؤں میں بیتے ہوئے زمانوں کو

    نشیلی چھاؤں میں بیتے ہوئے زمانوں کو لگا دو آگ اجل کے نگار خانوں کو بتا رہے ہیں جبین حیات کے تیور پناہ مل نہیں سکتی اب آستانوں کو دیے جلاؤ کہ انسانیت نے توڑ دیا جہان زر کے رو پہلے طلسم خانوں کو ہر ایک گام پہ مشعل دکھا رہی ہے حیات ستم کی آنچ میں نکھرے ہوئے زمانوں کو ہزار دار و ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2