Arshadul Qadri

ارشد القادری

ارشد القادری کی غزل

    مخالفوں کے جلو میں وہ آج شامل تھا

    مخالفوں کے جلو میں وہ آج شامل تھا وفا پرست رتوں کا جو شخص حاصل تھا وہ میری ذات کی پہچان بھی تعارف بھی مرے لہو میں بہ رنگ حیات شامل تھا حسین رات تھی ہاتھوں میں ہاتھ تھے ہم تھے کنار آب خموشی تھی ماہ کامل تھا تغیرات زمانہ بھی کیا عجب شے ہیں جو جاں نثار تھا پہلے وہ آج قاتل تھا مجھے ...

    مزید پڑھیے

    ویراں ویراں بام و در میں اور مری تنہائی

    ویراں ویراں بام و در میں اور مری تنہائی تاریکی میں ڈوبا گھر میں اور مری تنہائی اس کے قد کی خال و خد کی صورت کی سیرت کی باتیں کرتے ہیں شب بھر میں اور مری تنہائی جانے کس دن وہ آ جائے بانٹے پیار اثاثے دروازہ کشکول نظر میں اور مری تنہائی ہجر رتوں کے خاموشی کے دل کی بیتابی کے ہیں اک ...

    مزید پڑھیے

    سب رنگ وہی ڈھنگ وہی ناز وہی تھے

    سب رنگ وہی ڈھنگ وہی ناز وہی تھے اس بار تو موسم کے سب انداز وہی تھے بس عجز کی خوشبو کی جگہ کبر کی بو تھی لہجے میں ذرا فرق تھا الفاظ وہی تھے کیا جانیے کیوں اب کے مرے دل میں نہ اترے سر لے وہی آواز وہی ساز وہی تھے جو ننگ خلائق تھے جو دشمن تھے وطن کے سینوں پہ سجائے ہوئے اعزاز وہی ...

    مزید پڑھیے