Arjumand Bano Afshan

ارجمند بانو افشاں

  • 1962

ارجمند بانو افشاں کے تمام مواد

7 غزل (Ghazal)

    کبھی جو ختم نہ ہو ایسی تازگی دے دی

    کبھی جو ختم نہ ہو ایسی تازگی دے دی تری وفا نے نئی مجھ کو زندگی دے دی ہمارے پاس تھا کیا اور متاع دل کے سوا ترے سوال پہ وہ بھی خوشی خوشی دے دی وہ شخص کون تھا جس کے خلوص پیہم نے مری حیات کو سورج سی روشنی دے دی عجیب بات ہے جس نے حیات مانگی تھی اسے تو موت ملی مجھ کو زندگی دے دی میں ...

    مزید پڑھیے

    سورج اگا تو زندگی کی شام ہو گئی

    سورج اگا تو زندگی کی شام ہو گئی اب صبح نو بھی موت کا پیغام ہو گئی دل میں سما گئیں وہ زمانے کی نفرتیں مہر و وفا بھی آخرش بدنام ہو گئی انسان سارے مسجد و مندر میں بٹ گئے انسانیت اس دور میں ناکام ہو گئی زیتون کی جو شاخ اٹھائے تھا ہاتھ میں گردن قلم اسی کی سر عام ہو گئی افشاںؔ کہاں سے ...

    مزید پڑھیے

    جو راہ چلنا ہے خود ہی چن لو یہاں کوئی راہبر نہیں ہے

    جو راہ چلنا ہے خود ہی چن لو یہاں کوئی راہبر نہیں ہے یہی حقیقت ہے بات مانو تمہیں ابھی کچھ خبر نہیں ہے کسی کو سادہ دلی کا بدلہ ملا ہی کب ہے جو اب ملے گا وفا بھی دنیا میں ایک شے ہے مگر وہ اب معتبر نہیں ہے نہ جانے کب رخ ہوا بدل دے بھڑک اٹھیں پھر وہ بجھتے شعلے ہراس ہے وہ فضا پہ طاری کہیں ...

    مزید پڑھیے

    یہ شہر ہے وہ شہر کہ جس میں ہیں بے وجہ کامیاب چہرے

    یہ شہر ہے وہ شہر کہ جس میں ہیں بے وجہ کامیاب چہرے یہاں سیاست کی آندھیوں نے مٹا دیئے ماہتاب چہرے فریب کھانا نہ غم اٹھانا نہ ان کے سائے میں منہ چھپانا ہزار کانٹے چھپائے بیٹھے ہیں شوخ رنگیں گلاب چہرے کوئی بھی ہمدم نہیں ہے سچا کوئی بھی ساتھی نہیں ہے مخلص جنہیں تم اپنا سمجھ رہے ہو ...

    مزید پڑھیے

    ہم ہیں اور ضبط فغاں ہے آج کل

    ہم ہیں اور ضبط فغاں ہے آج کل صبر کا پھر امتحاں ہے آج کل ہم سے روٹھا ہے تو پھر کس سے ہے خوش کس پہ آخر مہرباں ہے آج کل دل بھی پژمردہ ہے آنکھیں مضمحل یاد بس تیری جواں ہے آج کل ایک وعدہ پر مٹا دی زندگی ہم سا دیوانہ کہاں ہے آج کل گھر گئے ہم وقت کے طوفان میں اے غم جاناں کہاں ہے آج ...

    مزید پڑھیے

تمام