Anwar Siddiqui

انور صدیقی

  • 1928

انور صدیقی کے تمام مواد

5 غزل (Ghazal)

    ہجوم شعلہ میں تھا حلقۂ شرر میں تھا

    ہجوم شعلہ میں تھا حلقۂ شرر میں تھا کب اپنا خواب میں کوئی سایۂ شجر میں تھا میں آج پھر تجھے کیا دیکھ پاؤں گا دنیا وہ شخص دیر تلک آج پھر نظر میں تھا سیہ فضاؤں میں اونچی اڑان سے پہلے کرن کرن کا اجالا سا بال و پر میں تھا خنک فضاؤں میں اس دشت غم کے آنے تک ہمارے ساتھ کوئی اور بھی سفر ...

    مزید پڑھیے

    ڈبوئے دیتا ہے خود آگہی کا بار مجھے

    ڈبوئے دیتا ہے خود آگہی کا بار مجھے میں ڈھلتا نشہ ہوں موج طرب ابھار مجھے اے روح عصر میں تیرا ہوں تیرا حصہ ہوں خود اپنا خواب سمجھ کر ذرا سنوار مجھے بکھر کے سب میں عبث انتظار ہے اپنا جلا کے خاک کر اے شمع انتظار مجھے صدائے رفتہ سہی لوٹ کر میں آؤں گا فراز خواب سے اے زندگی پکار ...

    مزید پڑھیے

    کیا شہر میں ہے گرمئ بازار کے سوا

    کیا شہر میں ہے گرمئ بازار کے سوا سب اجنبی ہیں ایک دل زار کے سوا اس دشت بے خودی میں کہ دنیا کہیں جسے غافل سبھی ہیں اک نگۂ یار کے سوا چہروں کے چاند راکھ ہوئے بام بجھ گئے کچھ بھی بچا نہ حسرت دیدار کے سوا عالم تمام تیرگئ درد مضمحل ہاں اک فروغ شعلۂ رخسار کے سوا ساری شفق سمیٹ کے سورج ...

    مزید پڑھیے

    عذاب ہم سفری سے گریز تھا مجھ کو

    عذاب ہم سفری سے گریز تھا مجھ کو پکارتا رہا اک ایک قافلا مجھ کو میں اپنی لوٹتی آواز کے حصار میں تھا وہ لمحہ جب تری آواز نے چھوا مجھ کو یہ کس نے چھین لیے مجھ سے خوشبوؤں کے مکاں یہ کون دشت کی دیوار کر گیا مجھ کو اجالتی نہیں اب مجھ کو کوئی تاریکی سنوارتا نہیں اب کوئی حادثہ مجھ ...

    مزید پڑھیے

    میری نظر کے لیے کوئی روایت نہ تھی

    میری نظر کے لیے کوئی روایت نہ تھی سب کی طرح دیکھنا جبر تھا عادت نہ تھی ایسا لگا جیسے میں منظر مانوس تھا اس کی نگاہوں میں کل شوخیٔ حیرت نہ تھی میرے شب و روز تھے میری صدی کی طرح کون سا لمحہ تھا وہ جس میں قیامت نہ تھی پیرہن جسم و جاں زخم ستم تھا تمام کیسا ستم گر تھا وہ کوئی جراحت نہ ...

    مزید پڑھیے