انور معظم کی غزل

    یہ غزل کی انجمن ہے ذرا اہتمام کر لو

    یہ غزل کی انجمن ہے ذرا اہتمام کر لو کسی غم کو مے بنا لو کسی دل کو جام کر لو کہاں صبح غم کا سورج کہاں شام کا ستارہ اسی رخ پہ زلف بکھرے یہی صبح و شام کر لو وہ حبیب ہو کہ رہبر وہ رقیب ہو کہ رہزن جو دیار دل سے گزرے اسے ہم کلام کر لو یہ کہاں کے محتسب ہیں یہ کہاں کی مصلحت ہے جو انہیں نہیں ...

    مزید پڑھیے

    ہمیں بھولا نہیں افسانہ دل کا

    ہمیں بھولا نہیں افسانہ دل کا ابھی ہاتھوں میں ہے پیمانہ دل کا دھواں اٹھتا نظر آتا ہے ہر سو ابھی آباد ہے ویرانہ دل کا جہاں بکھری ہے اب خاکستر دل اسی جا تھا کبھی کاشانہ دل کا ابھی تک یاد ہیں وہ دن کہ جب تھا ہر اک آوارہ غم دیوانہ دل کا وہ امیدوں کا اک ہلکا تبسم دھڑک اٹھنا وہ ...

    مزید پڑھیے

    زخم نظارہ خون نظر دیکھتے رہو

    زخم نظارہ خون نظر دیکھتے رہو جو کچھ دکھائے دیدۂ تر دیکھتے رہو چشم صدف کے درد سے صرف نظر کرو کس طرح ٹوٹتے ہیں گہر دیکھتے رہو شاید کسی کا نقش کف پا چمک اٹھے اے رہنماؤ راہ گزر دیکھتے رہو گیسوئے شب سنوارنے والو کبھی کبھی آئینۂ نگار سحر دیکھتے رہو آنکھوں میں گھل نہ جائیں کہیں ...

    مزید پڑھیے

    آؤ دیکھیں اہل وفا کی ہوتی ہے توقیر کہاں

    آؤ دیکھیں اہل وفا کی ہوتی ہے توقیر کہاں کس محفل کا نام ہے مقتل کھنچتی ہے شمشیر کہاں چھوٹ نہ پاؤ گے دل والو چاہت کے اس زنداں سے چاہو تو دل ٹوٹ بھی جائیں ٹوٹے گی زنجیر کہاں چشم سحر میں آس امید کیا آنسو کی اک بوند نہیں یوں دامن پھیلائے چلے ہیں راتوں کے رہ گیر کہاں صدیوں کے پہچانے ...

    مزید پڑھیے

    آج کچھ یوں شب تنہائی کا افسانہ چلے

    آج کچھ یوں شب تنہائی کا افسانہ چلے روشنی شمع سے دل درد سے بیگانہ چلے شعلہ در شعلہ کسی یاد کے چہرے ابھریں موج در موج حباب رخ جانانہ چلے کچھ نہ ہو آنکھ میں بے درد نگاہوں کے سوا گفتگو ساقیٔ دوراں سے حریفانہ چلے وقت جھومے کہیں بہکے کہیں تھم جائے کہیں کھل اٹھیں نقش قدم یوں کوئی ...

    مزید پڑھیے

    جب مری زیست کے عنواں نئے مطلوب ہوئے

    جب مری زیست کے عنواں نئے مطلوب ہوئے میرے اعمال میں ارمان بھی محسوس ہوئے ان میں سب اپنا پتہ اپنا نشاں ڈھونڈتے ہیں جتنے افسانے ترے نام سے منسوب ہوئے سب دکھاتے ہیں ترا عکس مری آنکھوں میں ہم زمانے کو اسی طور سے محبوب ہوئے جن کو ایمان تھا نظروں کی مسیحائی پر دل کی بستی سے جو گزرے ...

    مزید پڑھیے

    یہ قصۂ غم دل ہے تو بانکپن سے چلے

    یہ قصۂ غم دل ہے تو بانکپن سے چلے کسی نگاہ پہ ٹھہرے کسی بدن سے چلے نہ جانے کس کے کرم سے کھلے کلی دل کی سموم دشت سے اٹھے صبا چمن سے چلے وہ آئے دل میں تو یوں جیسے شام کا تارہ مثال ماہ ستاروں کی انجمن سے چلے فسانے چاک گریباں کے پڑ گئے پھیکے جنوں کی بات کبھی تیرے پیرہن سے چلے ہجوم ...

    مزید پڑھیے

    ڈوبتے تاروں سے پوچھو نہ قمر سے پوچھو

    ڈوبتے تاروں سے پوچھو نہ قمر سے پوچھو قصۂ رخصت شب شمع سحر سے پوچھو کس نے بہلایا خزاں کو گل تر سے پوچھو گل پہ کیا گزری بہاروں کے جگر سے پوچھو کون رویا پس دیوار چمن آخر شب کیوں صبا لوٹ گئی راہ گزر سے پوچھو رات بھر دیپ سر راہ جلے کس کے لیے کیوں اندھیرا تھا بھرے گھر میں قمر سے ...

    مزید پڑھیے

    دیدۂ تر نے عجب جلوہ گری دیکھی ہے

    دیدۂ تر نے عجب جلوہ گری دیکھی ہے غم نے جس شاخ کو پالا وہ ہری دیکھی ہے ہائے کس بت کی خدائی کا بھرم ٹوٹا ہے خلق نے آج ان آنکھوں میں تری دیکھی ہے نہ ملا پر نہ ملا عشق کو انداز جنوں ہم نے مجنوں کی بھی آشفتہ سری دیکھی ہے آب و گل غنچہ و گل دیدہ و دل شمس و قمر کن حجابوں میں تری پردہ دری ...

    مزید پڑھیے

    غم حبیب غم دو جہاں نہیں ہوتا

    غم حبیب غم دو جہاں نہیں ہوتا اگر خلوص وفا بے کراں نہیں ہوتا دلوں کی آگ بڑھاؤ کہ لوگ کہتے ہیں چراغ حسن سے روشن جہاں نہیں ہوتا تری نگاہ کرم ہی کا یہ اثر تو نہیں جہاں میں ہم پہ کوئی مہرباں نہیں ہوتا شعور منزل مقصود بھی ہے شرط سفر ہجوم راہرواں کارواں نہیں ہوتا

    مزید پڑھیے