Ameen Adirai

امین اڈیرائی

  • 1964

امین اڈیرائی کی غزل

    اس نے جو غم کیے حوالے تھے

    اس نے جو غم کیے حوالے تھے ہم نے اک عمر وہ سنبھالے تھے صحن دل میں تمہارے سب وعدے میں نے بچوں کی طرح پالے تھے آنکھ سے خود بہ خود نکل آئے اشک ہم نے کہاں نکالے تھے اک خوشی ایسے مسکرائی تھی درد جیسے بچھڑنے والے تھے اپنے ہاتھوں سے جو بنائے بت ایک دن سارے توڑ ڈالے تھے چار سو وحشتوں ...

    مزید پڑھیے

    اک اشک سر شوخیٔ رخسار میں گم ہے

    اک اشک سر شوخیٔ رخسار میں گم ہے آئینہ بھی اس حسن کے اسرار میں گم ہے کوئی تو زمیں زر کا پجاری ہے مرے دوست اور کوئی یہاں اپنے ہی گھر بار میں گم ہے اپنوں کے رویوں نے جسے توڑ دیا تھا وہ شخص کسی محفل اغیار میں گم ہے پایا تو سکھا دے گا مجھے شعلہ بیانی وہ حرف جو اس سینۂ کہسار میں غم ...

    مزید پڑھیے

    قصۂ خاک تو کچھ خاک سے آگے تک تھا

    قصۂ خاک تو کچھ خاک سے آگے تک تھا گیلی مٹی کا سفر چاک سے آگے تک تھا میں بشر تھا سو مرے پاؤں سے لپٹی تھی زمیں اور چرچا مرا افلاک سے آگے تک تھا شعلۂ عشق غم ہجر سر شہر ہجوم اک گریبان تھا صد چاک سے آگے تک تھا خامشی کرب لہو رنگ میں ڈوبے ہوئے پھول مرحلہ دیدۂ نمناک سے آگے تک تھا لوٹ آیا ...

    مزید پڑھیے

    رکھ دیا میں نے در حسن پہ ہارا ہوا عشق

    رکھ دیا میں نے در حسن پہ ہارا ہوا عشق آج کے بعد مری جان تمہارا ہوا عشق چوٹ گہری تھی مگر پاؤں نہیں رک پائے ہم پلٹ آئے وہیں ہم کو دوبارہ ہوا عشق جھلملاتا ہے مری آنکھ میں آنسو بن کر آ گیا راس مجھے دل میں اتارا ہوا عشق سکۂ وقت بدلتے ہی سبھی چھوڑ گئے ذات کے شہر میں اک عمر سہارا ہوا ...

    مزید پڑھیے