Amber Waseem Allahabadi

عنبر وسیم الہآبادی

  • 1985

عنبر وسیم الہآبادی کی غزل

    آئینہ دیکھ کر نہ تو شیشے کو دیکھ کر

    آئینہ دیکھ کر نہ تو شیشے کو دیکھ کر حیران دل ہے آپ کے چہرے کو دیکھ کر یہ واقعہ بھی خوب سر رہ گزر ہوا پتھر نے منہ چھپا لیے شیشے کو دیکھ کر بازار سے گزرتے ہوئے لگ رہا ہے ڈر بچہ مچل نہ جائے کھلونے کو دیکھ کر جگنو کی کوششوں سے سحر کیسے ہو گئی حیران ہیں اندھیرے اجالے کو دیکھ کر سچ ...

    مزید پڑھیے

    میرا خط لکھ کے بلانا اسے اچھا نہ لگا

    میرا خط لکھ کے بلانا اسے اچھا نہ لگا اس طرح پیار جتانا اسے اچھا نہ لگا کہہ کے ٹھوکر وہ تو راہوں میں گرا تھا لیکن میرا یوں ہاتھ بڑھانا اسے اچھا نہ لگا رہنے والی تھی وہ محلوں کی اسی کی خاطر میرا چھوٹا سا ٹھکانا اسے اچھا نہ لگا سن لیا پہلے تو ہنس ہنس کے فسانہ عنبرؔ پھر یہ بولی یہ ...

    مزید پڑھیے

    حیراں میں پہلی بار ہوا زندگی میں کل

    حیراں میں پہلی بار ہوا زندگی میں کل اپنی جھلک دکھائی پڑی تھی کسی میں کل ماحول میں سجا کے اندھیروں کا اک فریب جگنو کو میں نے دیکھ لیا روشنی میں کل اچھے نہیں کہ حال پہ ماضی کا ہو اثر نہ پوچھ آج جو بھی ہوا بے کلی میں کل کوثر کی موج شکر کے سجدے میں گر پڑے کیا جانے میں نے کیا کہا تشنہ ...

    مزید پڑھیے

    کہیں سانحے ملیں گے کہیں حادثہ ملے گا

    کہیں سانحے ملیں گے کہیں حادثہ ملے گا ترے شہر کی فضا سے مجھے اور کیا ملے گا کوئی سنگ توڑنے ہے سر راہ زندگانی میں ہر اک سے پوچھتا ہوں کہیں آئنا ملے گا تری جان بخش دینا مری مصلحت کا جز ہے مرے قاتلوں سے اک دن ترا سلسلہ ملے گا مرے قتل کی حقیقت نہ چھپا سکے گا کوئی مرے قاتلوں کے گھر میں ...

    مزید پڑھیے