Ambar Shameem

عنبر شمیم

عنبر شمیم کی غزل

    سائباں کیا ابر کا ٹکڑا ہے کیا

    سائباں کیا ابر کا ٹکڑا ہے کیا دھوپ تو معلوم ہے سایا ہے کیا اپنے دامن میں چھپا لے موج غم قطرہ قطرہ زندگی جینا ہے کیا خواب آنسو احتجاجی زندگی پوچھیے مت شہر کلکتہ ہے کیا تند جھونکے سب اڑا لے جائیں گے شاخ سے ٹوٹا ہوا پتا ہے کیا ہر قدم اک سانحہ ہے دوستو ایسے موسم میں کوئی جیتا ہے ...

    مزید پڑھیے

    رنگ کالا ہے نہ ہے پیکر سیاہ

    رنگ کالا ہے نہ ہے پیکر سیاہ آدمی دراصل ہے اندر سیاہ اب کہاں قوس قزح کے دائرے اب ہے تا حد نظر منظر سیاہ کتنا کالا ہو گیا تھا اس کا دل جسم سے نکلا تو تھا خنجر سیاہ وقت نے سنولا دیا سارا بدن دھیرے دھیرے ہو گیا مرمر سیاہ دھوپ کافی دور تک تھی راہ میں لمحہ لمحہ ہو گیا پیکر سیاہ

    مزید پڑھیے

    کوئی دیوار نہ در باقی ہے

    کوئی دیوار نہ در باقی ہے دشت خوں حد نظر باقی ہے سب مراحل سے گزر آیا ہوں اک تری راہ گزر باقی ہے صبح روشن ہے چھتوں کے اوپر رات پلکوں پہ مگر باقی ہے خواہشیں قتل ہوئی جاتی ہیں اک مرا دیدۂ تر باقی ہے کون دیتا ہے صدائیں مجھ کو کس کے ہونٹوں کا اثر باقی ہے کٹ گئی شاخ تمنا عنبرؔ نا ...

    مزید پڑھیے