علی مزمل کی غزل

    شہر دل کنج بیابان نہیں تھا پہلے

    شہر دل کنج بیابان نہیں تھا پہلے میں کبھی اتنا پریشان نہیں تھا پہلے بائیں پہلو میں جو اک سنگ پڑا ہے ساکت یہ دھڑکتا بھی تھا بے جان نہیں تھا پہلے شہریاروں سے مراسم تھے بہت ہی گہرے تیرہ بختوں سے بھی انجان نہیں تھا پہلے لفظ روٹھے ہوئے رہتے تھے قلم سے اکثر جن سے تجدید کا امکان نہیں ...

    مزید پڑھیے

    ہر برے وقت کے افعال بدل دیتا ہے

    ہر برے وقت کے افعال بدل دیتا ہے عشق داناؤں کے اقوال بدل دیتا ہے برگ جاں ہیئت اجزا کا پریشان سا جز دیکھتے دیکھتے اشکال بدل دیتا ہے وقت بیدار مگر ہے تو تغیر کا اسیر جو بدلنا ہو بہ ہر حال بدل دیتا ہے اک ذرا صبر کہ پرواز کا خالق یک دم وقت آنے پہ پر و بال بدل دیتا ہے کوئی مجذوب الہٰ ...

    مزید پڑھیے

    نہ ماہرو نہ کسی ماہتاب سے ہوئی تھی

    نہ ماہرو نہ کسی ماہتاب سے ہوئی تھی ہمیں تو پہلی محبت کتاب سے ہوئی تھی فریب کل ہے زمیں اور نمونہ اضداد کہ ابتدا ہی گناہ و ثواب سے ہوئی تھی بس ایک شب کی کہانی نہیں کہ بھول سکیں ہر ایک شب ہی مماثل عتاب سے ہوئی تھی وجود چشم تھا ٹھہرے سمندروں کی مثال نمود حالت دل اک حباب سے ہوئی ...

    مزید پڑھیے

    حسب مقصود ہو گیا ہوں میں

    حسب مقصود ہو گیا ہوں میں راکھ کا دود ہو گیا ہوں میں ایک کمرے تلک بصیرت ہے کتنا محدود ہو گیا ہوں میں نام پہلے برائے نام تو تھا اب تو مفقود ہو گیا ہوں میں یوں کھنچے مفلسی میں سب رشتے جیسے مردود ہو گیا ہوں میں منفعت بانٹتا رہا کل تک آج بے سود ہو گیا ہوں میں شہر رد و قبول میں آ ...

    مزید پڑھیے

    در شہی سے در گدائی پہ آ گیا ہوں

    در شہی سے در گدائی پہ آ گیا ہوں میں نرم بستر سے چارپائی پہ آ گیا ہوں بدن کی ساری تمازتیں ماند پڑ رہی ہیں وہ بے بسی ہے کہ پارسائی پہ آ گیا ہوں نہیں ہے چہرے کا حال پڑھنے کی خو کسی میں سکوت توڑا ہے لب کشائی پہ آ گیا ہوں حصول گنج عطائے غیبی کے واسطے اب صفات ربی کی جبہ سائی پہ آ گیا ...

    مزید پڑھیے

    خسارہ در خسارہ کر لیا جائے

    خسارہ در خسارہ کر لیا جائے جنوں کو استعارہ کر لیا جائے یہ نقطہ بھی قرین مصلحت ہے عداوت کو گوارہ کر لیا جائے درون دل یم افسردگی ہے کوئی تنکا سہارا کر لیا جائے سخن ہائے برائے گفتنی سے غزل کو شاہپارہ کر لیا جائے سر آب رواں صحرا بچھا کر سرابوں سے کنارہ کر لیا جائے ضیا آنکھوں کی ...

    مزید پڑھیے

    تصور منکشف از بام ہو جانے سے ڈرتا ہوں

    تصور منکشف از بام ہو جانے سے ڈرتا ہوں عطائے کشف کے اتمام ہو جانے سے ڈرتا ہوں زمین و عرش کے باہم تعلق کے تناظر میں زمین و عرش کا ادغام ہو جانے سے ڈرتا ہوں کبھی سب کر گزرنے کا جنوں بے چین رکھتا ہے کبھی یوں بھی ہوا سب کام ہو جانے سے ڈرتا ہوں محبت ارتباط قلب سے مشروط ہوتی ہے یقین و ...

    مزید پڑھیے

    یہ کیا کہ خلق کو پورا دکھائی دیتا ہوں

    یہ کیا کہ خلق کو پورا دکھائی دیتا ہوں مگر میں خود کو ادھورا سجھائی دیتا ہوں اجل کو جا کے گریبان سے پکڑ لائے میں زندگی کو وہاں تک رسائی دیتا ہوں میں اپنے جسم کے سب منقسم حوالوں کو بنام رزق سخن کی کمائی دیتا ہوں وہ زندگی میں مجھے پھر کبھی نہیں ملتا میں اپنے خوابوں سے جس کو رہائی ...

    مزید پڑھیے

    میری املاک سمجھ بے سر و سامانی کو

    میری املاک سمجھ بے سر و سامانی کو ایک مدت سے میں لاحق ہوں پریشانی کو اب یہ معمول کے غم مجھ کو رلانے سے رہے سانحے چاہئیں اشکوں کی فراوانی کو لوٹ آئے گی جو افلاک سے فریاد مری کون بخشے گا سند میری ثنا خوانی کو پیش منظر بھی وہی تھا جو پس ذات رہا غم کی میراث ملی آنکھ کی حیرانی ...

    مزید پڑھیے