Aleem Afsar

علیم افسر

علیم افسر کی غزل

    نہ پوچھ ربط ہے کیا اس کی داستاں سے مجھے

    نہ پوچھ ربط ہے کیا اس کی داستاں سے مجھے بچھڑ گیا کہ بچھڑنا تھا کارواں سے مجھے مرے بدن میں کوئی بھر دے برف کے ٹکڑے کہ آنچ آتی ہے راتوں کو کہکشاں سے مجھے کرایہ دار بدلنا تو اس کا شیوہ تھا نکال کر وہ بہت خوش ہوا مکاں سے مجھے صدائیں جسم کی دیوار پار کرتی ہیں کوئی پکار رہا ہے مگر ...

    مزید پڑھیے

    کرنا پڑا تھا جس کے لئے یہ سفر مجھے

    کرنا پڑا تھا جس کے لئے یہ سفر مجھے وہ موج شوق چھوڑ گئی ریت پر مجھے آداب بزم کے سوا کچھ اور تو نہ تھا محفل میں اس نے پان دیے خاص کر مجھے لوٹا ہوں پھر وہ جسم کی ویرانیاں لئے حسرت سے دیکھتے ہیں یہ دیوار و در مجھے بازار کا تو ہوش ہے لیکن نہیں یہ یاد کل رات کون چھوڑ گیا میرے گھر ...

    مزید پڑھیے

    بن کر لہو یقین نہ آئے تو دیکھ لیں

    بن کر لہو یقین نہ آئے تو دیکھ لیں ٹپکی ہیں پائے خواب سے صحرا کی وسعتیں پوچھے کبھی جو آبلہ پائی کی داستاں دریا سے کہہ بھی دیتے پہ صحرا سے کیا کہیں چلنا ہے ساتھ ساتھ رہ زیست میں تو آؤ نا آشنائیوں کی قبائیں اتار دیں جس کو چھپا کے دل میں سمندر نے رکھ لیا بادل کے منہ سے آؤ وہی داستاں ...

    مزید پڑھیے

    ہاتھوں سے میرے چھین کر دل کا مآل لے گئی

    ہاتھوں سے میرے چھین کر دل کا مآل لے گئی جانے کہاں کہاں مجھے گردش حال لے گئی کام نہ کوئی آ سکا لیکن یہ آنکھ کی نمی سلسلۂ غبار سے مجھ کو نکال لے گئی موج ہوس کے دوش پر کوہ سیاہ تک گیا مجھ کو ہوائے شوق پھر تا بہ زوال لے گئی انگلیاں توڑے کوئی کر لے زبان سنگ کی دیکھیے سبقت شرف صوت ...

    مزید پڑھیے

    بن کے ساحل کی نگاہوں میں تماشا ہم لوگ

    بن کے ساحل کی نگاہوں میں تماشا ہم لوگ نقش پا ڈھونڈ رہے ہیں سر دریا ہم لوگ سائے چھوٹے تو پگھلنے لگے پھر دھوپ میں جسم کاش ہوتے نہ کبھی خود سے شناسا ہم لوگ ہم کو نفرت ہے اندھیروں سے مگر کیا کیجے کہ اجالوں سے بھی رکھتے نہیں رشتہ ہم لوگ کچھ نظر آتا نہیں جن میں دھندلکوں کے سوا کرتے ...

    مزید پڑھیے

    چلے تھے بھر کے ریت جب سفر کی جسم و جاں میں ہم

    چلے تھے بھر کے ریت جب سفر کی جسم و جاں میں ہم تو ساحلوں کا عکس دیکھتے تھے بادباں میں ہم طیور تھے جو گھونسلوں میں پیکروں کے اڑ گئے اکیلے رہ گئے ہیں اپنے خواب کے مکاں میں ہم ہماری جستجو بھی اب تو ہو گئی ہے گرد گرد کہ نقش پا کو ڈھونڈتے ہیں رہ کے ہر نشاں میں ہم اشاریت تھی بے زباں تھا ...

    مزید پڑھیے