اپنے شہر میں فساد
سفید کبوتروں سے آج سارا آکاش خالی ہے دھوپ ڈری ہوئی فاختہ سی لگتی ہے منڈیروں پہ بیٹھی ہوئی زرد ہے کانپ کانپ اٹھتی ہے ہوا آدمی کی طرح کرفیو سے بھرے ہوئے شہر کی سڑکوں پہ گھوڑوں کی وحشی ٹاپیں آگ اڑاتی ہیں مکان جلتے ہیں مرے تمہارے اندر ہمارے دھواں دھواں سا کچھ رہ رہ اٹھتا ہے دور میں ...