احمد نثار کی غزل

    مقام ہجر کہیں امتحاں سے خالی ہے

    مقام ہجر کہیں امتحاں سے خالی ہے کہیں زمیں بھی کسی آسماں سے خالی ہے نشاط غم میں تو درد نہاں تلاش نہ کر نشاط غم کبھی درد نہاں سے خالی ہے عروج غم مرے سوز جگر سے آ پوچھا مقام دل کہیں سوز نہاں سے خالی ہے خیال اس کا میں شاید سمجھ نہیں پایا مرا خیال تو عشق بتاں سے خالی ہے اک ایسی بات ...

    مزید پڑھیے

    رشتۂ دل اسی سے ملتا ہے

    رشتۂ دل اسی سے ملتا ہے جو کوئی سادگی سے ملتا ہے بیٹھ جاتا ہے دل مرا اکثر جب کوئی بے بسی سے ملتا ہے ہائے افسوس میرا رستہ بھی بے وفا کی گلی سے ملتا ہے راز دل کیا سنا گیا اس کو تب سے وہ بے دلی سے ملتا ہے عمر بھر جو مجھے ستائے گا ہر گھڑی بے کلی سے ملتا ہے بھول پانا جسے نہیں ممکن پھول ...

    مزید پڑھیے

    غم کا پہاڑ موم کے جیسے پگھل گیا

    غم کا پہاڑ موم کے جیسے پگھل گیا اک آگ لے کے اشکوں کی صورت نکل گیا خوش فہمیوں کو سوچ کے میں بھی مچل گیا جیسے کھلونا دیکھ کے بچہ بہل گیا کل تک تو کھیلتا تھا وہ شعلوں سے آگ سے نا جانے آج کیسے وہ پانی سے جل گیا جھلسے بدن کو دیکھ کے کترا رہا ہے وہ جس کے میں گھر کی آگ بجھانے میں جل ...

    مزید پڑھیے

    عشق میں برباد ہونے کے سوا رکھا نہ تھا

    عشق میں برباد ہونے کے سوا رکھا نہ تھا غم کو سہنے کے علاوہ کوئی بھی چارہ نہ تھا یاد رہ رہ کر کسی کی ہے ستاتی رات بھر صبح ہوتے بھول جانا یہ تجھے شیوہ نہ تھا یہ تری الفت مجھے رکھتی ہے بیتابی میں گم یہ سبھی کو تھی خبر لیکن کوئی چرچا نہ تھا آئینہ دیکھوں تو کیوں تو ہی نظر آئے ...

    مزید پڑھیے

    وہ تو مجھ میں ہی نہاں تھا مجھے معلوم نہ تھا

    وہ تو مجھ میں ہی نہاں تھا مجھے معلوم نہ تھا خون بن کر وہ رواں تھا مجھے معلوم نہ تھا اتنے مجروح تھے جذبات ہمارے جس پر چرخ بھی محو فغاں تھا مجھے معلوم نہ تھا پیاس شدت کی تھی صحرا بھی تڑپ جاتا تھا امتحاں سر پہ جواں تھا مجھے معلوم نہ تھا پیر تو پیر یہاں روح کے چھالے نکلے دور اتنا ...

    مزید پڑھیے

    ترے پاس رہ کر سنور جاؤں گا میں

    ترے پاس رہ کر سنور جاؤں گا میں جدا ہو کے تجھ سے بکھر جاؤں گا میں ذرا سوچنے دے میں اٹھنے سے پہلے ترے در سے اٹھ کر کدھر جاؤں گا میں ترے ساتھ جینے کی امید لیکن ترا ساتھ نہ ہو تو مر جاؤں گا میں ترے پیار کے سائے میں چند لمحے ذرا جی تو لوں پھر گزر جاؤں گا میں سمٹ کر ہی رہنے دے آنچل سے ...

    مزید پڑھیے

    دل کو بہ نام عشق سجانا پڑا ہمیں

    دل کو بہ نام عشق سجانا پڑا ہمیں پھر اک فریب دل میں بسانا پڑا ہمیں یہ کس کا حال کس کو سنانا پڑا ہمیں اور دل کا حال دل سے چھپانا پڑا ہمیں جل کر بھی تیرے نام کی خوشبو بکھیر دے پھولوں میں ایسی آگ لگانا پڑا ہمیں دامن یہ خار سے نہیں پھولوں سے تار ہے جانے یہ کیسا قرض چکانا پڑا ہمیں جب ...

    مزید پڑھیے