Ahmad Shahryar

احمد شہریار

ایران میں مقیم معروف پاکستانی شاعر

Well-known Pakistani poet residing in Iran

احمد شہریار کی غزل

    دیا نصیب میں نہیں ستارہ بخت میں نہیں

    دیا نصیب میں نہیں ستارہ بخت میں نہیں تو کیا شرار بھی وجود سنگ سخت میں نہیں مری بقا کا راز ہے مسافرت مسافرت سو نقش پا بغیر میرے ساز و رخت میں نہیں مجھے ہے شہر کے گھروں سے صرف اس قدر گلہ کہ بھائی حسن آسمان لخت لخت میں نہیں مرا کمال منحصر ہے میرے اختصار پر مری نمو کا شائبہ کسی درخت ...

    مزید پڑھیے

    وہ مر گیا صدائے نوحہ گر میں کتنی دیر ہے

    وہ مر گیا صدائے نوحہ گر میں کتنی دیر ہے کہ سانحہ تو ہو چکا خبر میں کتنی دیر ہے ہمارے شہر کی روایتوں میں ایک یہ بھی تھا دعا سے قبل پوچھنا اثر میں کتنی دیر ہے مقابلہ ہے رقص کا بگولا کب کا آ چکا مگر پتا نہیں ابھی بھنور میں کتنی دیر ہے خدائے مہر آسماں اجال دے کہ یوں نہ ہو دئیے کو ...

    مزید پڑھیے

    یادوں کی تجسیم پہ محنت ہوتی ہے

    یادوں کی تجسیم پہ محنت ہوتی ہے بیکاری بھرپور مشقت ہوتی ہے ایسا خالی اور اتنا گنجان آباد آئینے کو دیکھ کے حیرت ہوتی ہے دیواروں کا اپنا صحرا ہوتا ہے اور کمروں کی اپنی وحشت ہوتی ہے اس کو یاد کرو شدت سے یاد کرو اس سے تنہائی میں برکت ہوتی ہے بچپن جوبن اور بڑھاپا اور پھر موت سب ...

    مزید پڑھیے

    راز درون آستیں کشمکش بیاں میں تھا

    راز درون آستیں کشمکش بیاں میں تھا آگ ابھی نفس میں تھی شعلہ ابھی زباں میں تھا وہ جو کہیں تھا وہ بھی میں اور جو نہیں تھا وہ بھی میں آپ ہی تھا زمین پر آپ ہی آسماں میں تھا لمس صدائے ساز نے زخم نہال کر دیے یہ تو وہی ہنر ہے جو دست طبیب جاں میں تھا خواب زیاں ہیں عمر کا خواب ہیں حاصل ...

    مزید پڑھیے

    غبار وقت کے گر آر پار دیکھئے گا

    غبار وقت کے گر آر پار دیکھئے گا تو ایک پل میں مرا شہسوار دیکھئے گا میں ایک بار اسے پھیروں گا اپنی گردن پر اور آپ بس مرے خنجر کی دھار دیکھئے گا کسی کا نقش نہیں باندھئے گا آنکھوں میں جسے بھی دیکھیے آئینہ وار دیکھئے گا کبھی نہ لوٹ کے آئیں گے آپ جانتا ہوں پر آئیے تو مرا انتظار ...

    مزید پڑھیے

    گمان کے لیے نہیں یقین کے لیے نہیں

    گمان کے لیے نہیں یقین کے لیے نہیں عجیب رزق خواب ہے زمین کے لیے نہیں خیال جو قدم کشا ہے تیرے لا شعور میں غزال ہے مگر سبکتگین کے لیے نہیں ہوائیں گوش بر صدا ہیں کس کے باب میں خموش نہیں دیے کی آیۂ مبین کے لیے نہیں اسے چھپاؤ کشتگاں کے دل میں راز کی طرح یہ تیغ آب دار آستین کے لیے ...

    مزید پڑھیے

    آئینہ بن کے اپنا تماشا دکھائیں ہم

    آئینہ بن کے اپنا تماشا دکھائیں ہم یوں سامنے رہیں کہ نظر بھی نہ آئیں ہم ممکن ہے دور جشن چراغاں ہو جب یہاں وہ تیرگی بڑھے کہ صحیفے جلائیں ہم درپیش ہے گزشتہ رتوں کا سفر ہمیں حیرت نہ کر کہ لوٹ کے واپس نہ آئیں ہم توفیق سیر باغ اگر ہو تو اب کی شام دل کی جگہ شجر پہ پرندے بنائیں ...

    مزید پڑھیے

    پھیل رہا ہے یہ جو خالی ہونے کا ڈر مجھ میں

    پھیل رہا ہے یہ جو خالی ہونے کا ڈر مجھ میں آخر کار سمٹ آئے گا میرا باہر مجھ میں رو دوں گا تو اشک نہیں آنکھوں سے ریت بہے گی خون کہاں کچھ سوکھے دریا ہیں صحرا بھر مجھ میں پہروں جلتا رہتا ہوں میں جیسے کوئی سورج ایک کرن جب رک جاتی ہے تجھ سے چھن کر مجھ میں تو موجود ہے میں معدوم ہوں اس کا ...

    مزید پڑھیے

    خوش نہیں آئے بیاباں مری ویرانی کو

    خوش نہیں آئے بیاباں مری ویرانی کو گھر بڑا چاہیئے اس بے سر و سامانی کو ڈھال دوں چشمۂ پر حرف کو آئینے میں اپنی آواز میں رکھ دوں تری حیرانی کو جادۂ نور کو ٹھوکر پہ سجاتا ہوا میں دیکھتا رہتا ہوں رنگوں کی پر افشانی کو سر صحرا مری آنکھوں کا تلاطم جاگا موجۂ ریگ نے سرشار کیا پانی ...

    مزید پڑھیے

    انعکاس تشنگی صحرا بھی ہے دریا بھی ہے

    انعکاس تشنگی صحرا بھی ہے دریا بھی ہے تر بتر یہ روشنی صحرا بھی ہے دریا بھی ہے آگ پر میرا تصرف آب پر میری گرفت میری مٹھی میں ابھی صحرا بھی ہے دریا بھی ہے جھیل میں ٹھہرا ہوا ہے اس کا عکس آتشیں آئنے میں اس گھڑی صحرا بھی ہے دریا بھی ہے جل اٹھیں یادوں کی قندیلیں صدائیں ڈوب ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2