Ahmad Sagheer Siddiqui

احمد صغیر صدیقی

احمد صغیر صدیقی کی غزل

    اک خواب ہے یہ پیاس بھی دریا بھی خواب ہے

    اک خواب ہے یہ پیاس بھی دریا بھی خواب ہے ہے خواب تو بھی تیری تمنا بھی خواب ہے یہ التزام دیدۂ خوش خواب بھی ہے خواب رنگ بہار قامت زیبا بھی خواب ہے وہ منزلیں بھی خواب ہیں آنکھیں ہیں جن سے چور ہاں یہ سفر بھی خواب ہے رستہ بھی خواب ہے یہ رفعتیں بھی خواب ہیں یہ آسماں بھی خواب پرواز بھی ...

    مزید پڑھیے

    آسماں زاد زمینوں پہ کہیں ناچتے ہیں

    آسماں زاد زمینوں پہ کہیں ناچتے ہیں ہم وہ پیکر ہیں سر عرش بریں ناچتے ہیں اپنا یہ جسم تھرکتا ہے بس اپنی دھن پر ہم کبھی اور کسی دھن پہ نہیں ناچتے ہیں اپنے رنگوں کو تماشے کا کوئی شوق نہیں مور جنگل میں ہی رہتے ہیں وہیں ناچتے ہیں تن کے ڈیرے میں ہے جاں مست قلندر کی طرح واہمے تھک کے جو ...

    مزید پڑھیے

    اور سی دھوپ گھٹا اور سی رکھی ہوئی ہے

    اور سی دھوپ گھٹا اور سی رکھی ہوئی ہے ہم نے اس گھر کی فضا اور سی رکھی ہوئی ہے کچھ مرض اور سا ہم نے بھی لگایا ہوا ہے اور اس نے بھی دوا اور سی رکھی ہوئی ہے اس قدر شور میں بس ایک ہمیں ہیں خاموش ہم نے ہونٹوں پہ صدا اور سی رکھی ہوئی ہے وہ دعا اور ہے جو مانگ رہے ہیں کہ ابھی دل میں اک اور ...

    مزید پڑھیے

    اک جسم ہیں کہ سر سے جدا ہونے والے ہیں

    اک جسم ہیں کہ سر سے جدا ہونے والے ہیں ہم بھی زباں سے اپنی ادا ہونے والے ہیں تعریف ہو رہی ہے ابھی تھوڑی دیر بعد خوش ہونے والے سارے خفا ہونے والے ہیں سنتے ہیں وہ انار کلی کھلنے والی ہے کہئے کہ ہم بھی موج صبا ہونے والے ہیں قربت میں اس کی اور ہی کچھ ہونے والے تھے اس سے بچھڑ کے دیکھیے ...

    مزید پڑھیے

    ہیں شاخ شاخ پریشاں تمام گھر میرے

    ہیں شاخ شاخ پریشاں تمام گھر میرے کٹے پڑے ہیں بڑی دور تک شجر میرے چراغ ان پہ جلے تھے بہت ہوا کے خلاف بجھے بجھے ہیں جبھی آج بام و در میرے ہزاروں سال کی تاریخ لکھی جائے گی زمیں کے بطن سے ابھریں گے جب کھنڈر میرے یہ دیکھنا ہے کہ اب ہار مانتا ہے کون ادھر ہے وسعت امکاں ادھر ہیں پر ...

    مزید پڑھیے