Ahmad Kamran

احمد کامران

احمد کامران کی غزل

    چراغ طاق طلسمات میں دکھائی دیا

    چراغ طاق طلسمات میں دکھائی دیا پھر اس کے بعد میرے ہاتھ میں دکھائی دیا میں خوش ہوں کمرے میں پہلی دراڑ آنے سے چلو میں اپنے مضافات میں دکھائی دیا کئی چراغ بنا لوں گا توڑ کر سورج اگر کبھی یہ مجھے رات میں دکھائی دیا ہزار آنکھوں نے گھیرے میں لے لیا مجھ کو میں ایک شخص کے خدشات میں ...

    مزید پڑھیے

    کوئی منصب کوئی دستار نہیں چاہئے ہے

    کوئی منصب کوئی دستار نہیں چاہئے ہے شاہزادی مجھے دربار نہیں چاہئے ہے آخری اشک سے اس سوگ کی تکمیل ہوئی اب مجھے کوئی عزا دار نہیں چاہئے ہے اس تکلف سے زیادہ کا طلب گار ہوں میں صرف یہ سایۂ دیوار نہیں چاہئے ہے اب مقابل مرے اپنے ہیں سو اے رب جلیل حوصلہ چاہئے تلوار نہیں چاہئے ...

    مزید پڑھیے

    دانۂ گندم بیدار اٹھانے لگا ہوں

    دانۂ گندم بیدار اٹھانے لگا ہوں خاک ہوں خاک کا آزار اٹھانے لگا ہوں کرۂ ہجر سے ہونا ہے نمودار مجھے میں ترے عشق کا انکار اٹھانے لگا ہوں لو نے سردار کیے رکھا ہے شب بھر تم کو اے چراغو میں یہ دستار اٹھانے لگا ہوں یہ کھلی جنگ ہے اور جنگ بھی ہے اپنے خلاف اس لیے اپنے طرف دار اٹھانے لگا ...

    مزید پڑھیے

    تو زیادہ میں سے باہر نہیں آیا کرتا

    تو زیادہ میں سے باہر نہیں آیا کرتا میں زیادہ کو میسر نہیں آیا کرتا میں ترا وقت ہوں اور روٹھ کے جانے لگا ہوں روک لے یار میں جا کر نہیں آیا کرتا اے پلٹ آنے کی خواہش یہ ذرا دھیان میں رکھ جنگ سے کوئی برابر نہیں آیا کرتا چند پیڑوں کو ہی مجنوں کی دعا ہوتی ہے سب درختوں پہ تو پتھر نہیں ...

    مزید پڑھیے

    خواب یوں ہی نہیں ہوتے پورے

    خواب یوں ہی نہیں ہوتے پورے جان و تن لگتے ہیں پورے پورے راس آئے گی محبت اس کو جس سے ہوتے نہیں وعدے پورے چھوڑ آئے ترے حصے کے دوست ہم نے منظر نہیں دیکھے پورے گفتگو ہوش ربا ہے اس کی اس کی باتیں ہیں صحیفے پورے ہجر اور رات تقابل میں ہیں اشک پورے کہ ستارے پورے یاد ہوں آدھا سا خود کو ...

    مزید پڑھیے

    یہ جو بیدار دکھائی دیا ہوں

    یہ جو بیدار دکھائی دیا ہوں آخری بار دکھائی دیا ہوں وہاں مشکل تھا سنائی دیتا شکر ہے یار دکھائی دیا ہوں آ حراست سے چھڑا ہجراں کو میں گرفتار دکھائی دیا ہوں پاؤں باندھے ہیں وفا سے جب نے تیز رفتار دکھائی دیا ہوں جھیل میں چاند گرا تھا اور میں جھیل کے پار دکھائی دیا ہوں مجھ پہ ...

    مزید پڑھیے

    تمہارے ہجر کو کافی نہیں سمجھتا میں

    تمہارے ہجر کو کافی نہیں سمجھتا میں کسی ملال کو حتمی نہیں سمجھتا میں یہ اور بات کہ عاری ہے دل محبت سے یہ دکھ سوا ہے کہ عاری نہیں سمجھتا میں چلا ہے رات کے ہمراہ چھوڑ کر مجھ کو چراغ اس کو تو یاری نہیں سمجھتا میں میں انہماک سے اک انتظار جی رہا ہوں مگر یہ کام ضروری نہیں سمجھتا ...

    مزید پڑھیے

    زندہ رہنے کا تقاضا نہیں چھوڑا جاتا

    زندہ رہنے کا تقاضا نہیں چھوڑا جاتا ہم نے تجھ کو نہیں چھوڑا نہیں چھوڑا جاتا عین ممکن ہے ترے ہجر سے مل جائے نجات کیا کریں یار یہ صحرا نہیں چھوڑا جاتا چھوڑ جاتی ہے بدن روح بھی جاتے جاتے قید سے کوئی بھی پورا نہیں چھوڑا جاتا اس قدر ٹوٹ کے ملنے میں ہے نقصان کہ جب کھیت پیاسے ہوں تو ...

    مزید پڑھیے

    مٹی سے بغاوت نہ بغاوت سے گریزاں

    مٹی سے بغاوت نہ بغاوت سے گریزاں ہم سہمے ہوئے لوگ ہیں ہمت سے گریزاں اک پل کا توقف بھی گراں بار ہے تجھ پر اور ہم کہ تھکے ہارے مسافت سے گریزاں اے بھولے ہوئے ہجر کہیں مل تو سہی یار اک دوجے سے ہم دونوں ہیں مدت سے گریزاں جا تجھ کو کوئی جسم سے آگے نہ پڑھے گا اے مجھ سے خفا میری محبت سے ...

    مزید پڑھیے

    تیرے حصے کے بھی صدمات اٹھا لیتا ہوں

    تیرے حصے کے بھی صدمات اٹھا لیتا ہوں آ تجھے آنکھوں پہ اے رات اٹھا لیتا ہوں عام سا شخص بچے گا تو اگر میں تیرے خال و خد سے یہ طلسمات اٹھا لیتا ہوں تو نے اے عشق یہ سوچا کہ ترا کیا ہوگا تیرے سر سے میں اگر ہاتھ اٹھا لیتا ہوں یہ اگر جنگ محبت ہے مرے یار تو پھر ایسا کرتا ہوں کہ میں مات ...

    مزید پڑھیے