Ahmad Kamal Hashmi

احمد کمال حشمی

معاصر شاعر، اپنی تضمینوں کے لیےمعروف

A contemporary poet, known for his tazmeens

احمد کمال حشمی کی غزل

    وہ اک حسیں کبھی تنہا نہیں نکلتا ہے

    وہ اک حسیں کبھی تنہا نہیں نکلتا ہے کہ جیسے چاند اکیلا نہیں نکلتا ہے ہر آدمی سے وفا کی امید مت رکھو ہر اک زمین سے سونا نہیں نکلتا ہے گھروں میں چاروں طرف قمقمے تو روشن ہیں مگر دلوں سے اندھیرا نہیں نکلتا ہے کچھ امتحان فقط امتحان ہوتے ہیں ہر امتحاں کا نتیجہ نہیں نکلتا ہے کبھی ...

    مزید پڑھیے

    امیر شہر کی چوکھٹ پہ جا کے لوٹ آیا

    امیر شہر کی چوکھٹ پہ جا کے لوٹ آیا غریب وقت انگوٹھا دکھا کے لوٹ آیا لگا رہا تھا میں بڑھ چڑھ کے بولیاں لیکن خریدا کچھ نہیں قیمت بڑھا کے لوٹ آیا کسر رہی سہی کر دیں گی آندھیاں پوری میں اس درخت کو جڑ سے ہلا کے لوٹ آیا میں چاند چھونے کی خواہش میں گھر سے نکلا تھا اور اپنی پلکوں پہ ...

    مزید پڑھیے

    آہ بھرتا ہوں تو بھرنے بھی نہیں دیتا ہے

    آہ بھرتا ہوں تو بھرنے بھی نہیں دیتا ہے اور وہ خاموشی سے مرنے بھی نہیں دیتا ہے ناخدا کشتی کو ساحل سے لگاتا بھی نہیں بیچ دریا میں اترنے بھی نہیں دیتا ہے دوسرا زخم لگا دیتا ہے دل پر میرے پہلے کو ٹھیک سے بھرنے بھی نہیں دیتا ہے میرے آنسوؤں سے وہ سنگ پگھلتا بھی نہیں سر پٹک کر مجھے ...

    مزید پڑھیے

    جانے کیسا یہ نور ہے مجھ میں

    جانے کیسا یہ نور ہے مجھ میں چاند کوئی ضرور ہے مجھ میں کوئی پڑھتا نہیں کبھی اس کو وہ جو بین السطور ہے مجھ میں جانے کس میں ہے عاجزی میری جانے کس کا غرور ہے مجھ میں کہیں باہر نظر نہیں آتا میرا دشمن ضرور ہے مجھ میں کرچیاں چبھ رہی ہیں سینے میں آئنہ چور چور ہے مجھ میں مدتوں تک سفر ...

    مزید پڑھیے

    اس کی آنکھوں میں کچھ نمی سی ہے

    اس کی آنکھوں میں کچھ نمی سی ہے وقت کی نبض بھی تھمی سی ہے ہر طرف جوں کی توں ہے ہر اک شے کیوں طبیعت میں برہمی سی ہے کوئی اب تک سمجھ نہیں پایا زندگی گونگے آدمی سی ہے میری جاں تیری سرخیٔ لب میں خون دل کی مرے کمی سی ہے اس سے حاصل نہیں فرار کبھی درد اک چیز لازمی سی ہے وہ فسردہ نظر ...

    مزید پڑھیے

    دل مجھے سمجھاتا ہے تو دل کو سمجھاتا ہوں میں

    دل مجھے سمجھاتا ہے تو دل کو سمجھاتا ہوں میں جانے کیسے عقل کی باتوں میں آ جاتا ہوں میں دن مجھے ہر دن بنا لیتا ہے اپنا یرغمال رات جب آتی ہے تو خود کو چھڑا لاتا ہوں میں کوئی جھوٹا وعدہ بھی کرتا نہیں ہے وہ کبھی خود امیدیں باندھ لیتا ہوں بہل جاتا ہوں میں زندہ رہنے کا مجھے فن آج تک ...

    مزید پڑھیے

    ڈرا رہا ہے مجھے ایک ڈر اندھیرے میں

    ڈرا رہا ہے مجھے ایک ڈر اندھیرے میں بچھڑ نہ جائے کہیں ہم سفر اندھیرے میں امڈتی کالی گھٹاؤں کو روکنا ہوگا نہ ڈوب جائے کہیں دوپہر اندھیرے میں کرو نہ میرے لئے تم کوئی دیا روشن مجھے اب آنے لگا ہے نظر اندھیرے میں کئی چراغوں نے اودھم مچائی تھی اک شب تبھی سے ڈوب گیا گھر کا گھر اندھیرے ...

    مزید پڑھیے

    حسن بازار تو ہے گرمئ بازار نہیں

    حسن بازار تو ہے گرمئ بازار نہیں بیچنے والے ہیں سب کوئی خریدار نہیں آؤ بتلائیں کہ وعدوں کی حقیقت کیا ہے پیڑ اونچے ہیں سبھی کوئی ثمر دار نہیں دل کی افتاد مزاجی سے پریشاں ہوں میں تھی طلب جس کی اب اس کا ہی طلب گار نہیں اب جسے دیکھو وہی گھوم رہا ہے باندھے دستیاب اب کسی دوکان پہ ...

    مزید پڑھیے

    کسی کی زیست کا بس ایک باب سناٹا

    کسی کی زیست کا بس ایک باب سناٹا کسی کے واسطے پورا نصاب سناٹا ہے اس کو لفظ سے مطلب مجھے معانی سے ہے اس کا شور مرا انتخاب سناٹا درون خانہ کی ویرانیاں کچھ ایسی تھیں برون خانہ ہوا آب آب سناٹا مجھے پتہ ہے کہانی کا اختتام ہے کیا طویل بات کا لب لباب سناٹا مری خموشی پہ انگلی اٹھاتا ...

    مزید پڑھیے

    وہ بجھ گیا تو اندھیروں کو بھی ملال رہا

    وہ بجھ گیا تو اندھیروں کو بھی ملال رہا وہ اک چراغ جو جلنے میں بھی بے مثال رہا کبھی بھلا نہ سکا دل شکستگی اپنی جڑا تو جڑ کے بھی اس آئنے میں بال رہا مری حیات نے حاتم بنا دیا مجھ کو ہر اک سوال کے بعد اک نیا سوال رہا ہمیشہ میں نے بھی ناکامیوں سے کام لیا تمام عمر مرا میرؔ جیسا حال ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2