دن سے بچھڑی ہوئی بارات لیے پھرتی ہے
دن سے بچھڑی ہوئی بارات لیے پھرتی ہے چاند تاروں کو کہاں رات لیے پھرتی ہے یہ کہیں اس کے مظالم کا مداوا ہی نہ ہو یہ جو پتوں کو ہوا ساتھ لیے پھرتی ہے چلتے چلتے ہی سہی بات تو کر لی جائے ہم کو دنیا میں یہی بات لیے پھرتی ہے لمحہ لمحہ تری فرقت میں پگھلتی ہوئی عمر گرمی شوق ملاقات لیے ...