تیر نظر سے چھد کے دل افگار ہی رہا
تیر نظر سے چھد کے دل افگار ہی رہا ناسور اس میں صورت سوفار ہی رہا دنیا سے ہے نرالی عدالت حسینوں کی فریاد جس نے کی وہ گنہ گار ہی رہا سودائیوں کی بھیڑ کوئی دم نہ کم ہوئی ہر وقت گھر میں یار کے بازار ہی رہا نرگس جو اس مسیح کی نظروں سے گر گئی اچھے نہ پھر ہوئے اسے آزار ہی رہا گل زار میں ...