Aftab Arif

آفتاب عارف

آفتاب عارف کی غزل

    کہوں جو کرب فقط کرب ذات سمجھو گے

    کہوں جو کرب فقط کرب ذات سمجھو گے مگر کبھی تو مری نفسیات سمجھو گے یہ عمر جاؤ بھی دو چار دن کی کیا ہے بساط ابھی کہاں سے غم کائنات سمجھو گے مرا وجود صلہ ہے مری شکستوں کا بگڑ بگڑ کے بنوگے تو بات سمجھو گے ابھی تو جنبش لب پر ہزار پہرے ہیں جو لب کھلے بھی تو کیا دل کی بات سمجھو گے ادھر ...

    مزید پڑھیے

    پیاسی ہیں رگیں جسم کو خوں مل نہیں سکتا

    پیاسی ہیں رگیں جسم کو خوں مل نہیں سکتا سورج کی حرارت سے سکوں مل نہیں سکتا بنیاد مرے گھر کی ہواؤں پہ رکھی ہے ڈھونڈے سے کوئی سنگ ستوں مل نہیں سکتا سب کے لیے لازم نہیں سمتوں کا تعین میں راہ کی اس بھیڑ میں کیوں مل نہیں سکتا اٹھا تھا بگولہ سا اڑا لے گیا سب کچھ سوچا کیا میں خاک میں ...

    مزید پڑھیے

    پچھتا رہے ہیں درد کے رشتوں کو توڑ کر (ردیف .. گ)

    پچھتا رہے ہیں درد کے رشتوں کو توڑ کر سر پھوڑتے ہیں اپنے ہی دیوار و در سے لوگ پتھر اچھال اچھال کے مرہم کے نام پر کرتے رہے مذاق مرے زخم میرے لوگ کب ٹوٹے دیکھیے مرے خوابوں کا سلسلہ اب تو گھروں کو لوٹ رہے ہیں سفر سے لوگ سیلاب جنگ زلزلے طوفان آندھیاں سنتے رہے کہانیاں بوڑھے شجر سے ...

    مزید پڑھیے