Aftab Ahmad

آفتاب احمد

آفتاب احمد کے تمام مواد

5 غزل (Ghazal)

    ممکن ہے شے وہی ہو مگر ہو بہ ہو نہ ہو

    ممکن ہے شے وہی ہو مگر ہو بہ ہو نہ ہو ریگ رواں بھی دیکھ کہیں آب جو نہ ہو قائم اسی تضاد کے دم سے ہے کائنات میں آرزو ہوں جس کی مری آرزو نہ ہو منظر بدل بدل کے بھی دیکھا ہے بارہا جو زخم اب ہے آنکھ پہ شاید رفو نہ ہو سہتا رہا ہوں ایک تسلسل سے اس لئے یہ ٹوٹ پھوٹ ہی مری وجہ نمو نہ ہو میں ...

    مزید پڑھیے

    کسی نشاں سے علامت سے یا سند سے نہ ہو

    کسی نشاں سے علامت سے یا سند سے نہ ہو اگر میں ہوں تو یہ ہونا بھی خال و خد سے نہ ہو میں ایک ایسے زمانے میں بسنا چاہتا ہوں زمانہ جس کا تعلق ازل ابد سے نہ ہو مرے عدو وہ حقیقت بھی کیا حقیقت ہے ثبوت جس کا میسر اسی کے رد سے نہ ہو اسی لیے تو میں رکھتا ہوں خوشبوؤں سا مزاج میں چاہتا ہوں کہ ...

    مزید پڑھیے

    کھلی آنکھوں میں در آنے سے پہلے

    کھلی آنکھوں میں در آنے سے پہلے نظر آؤ نظر آنے سے پہلے نہیں تھا مجھ کو زعم پارسائی کوئی الزام سر آنے سے پہلے ہمیں در پیش تھی نقل مکانی ترا حکم سفر آنے سے پہلے گلے ملتی ہے مجھ سے بے گھری بھی گلی میں روز گھر آنے سے پہلے ہوا کرتے ہیں رستے بھی رکاوٹ گزر جا رہ گزر آنے سے پہلے نظر ...

    مزید پڑھیے

    عمر رفتہ میں ترے ہاتھ بھی کیا آیا ہوں

    عمر رفتہ میں ترے ہاتھ بھی کیا آیا ہوں دن بتانے تھے مگر خود کو بتا آیا ہوں دھول بھی ایسے قرینے سے اڑائی ہے کہ میں ایک مرتے ہوئے رستے کو بچا آیا ہوں کل کو دے آؤں گا جا کر اسے بینائی بھی آنکھ دیوار پہ فی الحال بنا آیا ہوں وادئ صوت نہیں مجھ کو بھلانے والی نقش یوں کر کے وہاں اپنی صدا ...

    مزید پڑھیے

    یہ ریگ رواں یاد دہانی تو نہیں کیا

    یہ ریگ رواں یاد دہانی تو نہیں کیا صحرا کسی دریا کی نشانی تو نہیں کیا دیکھو مرا کردار کہیں پر بھی نہیں ہے دیکھو یہ کوئی اور کہانی تو نہیں کیا روشن ہے نیا عکس سر چشم تماشہ بیتے ہوئے منظر کی روانی تو نہیں کیا اس گھر کے در و بام بھی اپنے نہیں لگتے قسمت میں نئی نقل مکانی تو نہیں ...

    مزید پڑھیے