Abrar Ahmad

ابرار احمد

روشن خیال پاکستانی شاعر، سنجیدہ شعری حلقوں میں معروف

Widely-reputed Pakistani poet, well-known to serious poetry lovers.

ابرار احمد کی نظم

    بارش

    تو آفاق سے قطرہ قطرہ گرتی ہے سناٹے کے زینے سے اس دھرتی کے سینے میں تو تاریخ کے ایوانوں میں در آتی ہے اور بہا لے جاتی ہے جذبوں اور ایمانوں کو میلے دسترخوانوں کو تو جب بنجر دھرتی کے ماتھے کو بوسہ دیتی ہے کتنی سوئی آنکھیں کروٹ لیتی ہیں تو آتی ہے اور تری آمد کے نم سے پیاسے برتن بھر ...

    مزید پڑھیے

    ہوا جب تیز چلتی ہے

    ہوا جب تیز چلتی ہے شکستہ خواب جب مٹیالے رستوں پر مراد امن پکڑتے ہیں جھکی شاخوں کے ہونٹوں پر کسی بھولے ہوئے نغمے کی تانیں جب الٹتی ہیں گزشتہ وہم کی آنکھیں مرے سینے میں گرتی ہیں ستارے جب لرزتے ہیں مری آنکھوں کی سرحد پر افق دھند لانے لگتا ہے مہک آتے دنوں کی پھیل جاتی ہے مشام جاں میں ...

    مزید پڑھیے

    مٹی تھی کس جگہ کی

    بے فیض ساعتوں میں منہ زور موسموں میں خود سے کلام کرتے اکھڑی ہوئی طنابوں دن بھر کی سختیوں سے اکتا کے سو گئے تھے بارش تھی بے نہایت مٹی سے اٹھ رہی تھی خوشبو کسی وطن کی خوشبو سے جھانکتے تھے گلیاں مکاں دریچے اور بچپنے کے آنگن اک دھوپ کے کنارے آسائشوں کے میداں اڑتے ہوئے پرندے اک اجلے ...

    مزید پڑھیے

    مجھے اچھا لگتا ہے

    مجھے اچھے لگتے ہیں بادل جب وہ برستے ہیں اور آنکھیں جن میں کوئی بھی بسیرا کر سکتا ہے بکریاں اور بچے جو سڑک پار کر جاتے ہیں اور نہیں دیکھ پاتے اس آہنی ہاتھ کو جو ان کے تعاقب میں دوڑا چلا آتا ہے مجھے اچھے لگتے ہیں ڈاکئے کے قدم اور انسومنیا کی چائے اور بجھی بتی کا موٹر سائیکل جو اشارہ ...

    مزید پڑھیے

    ہمارے دکھوں کا علاج کہاں ہے

    اگر ہمارے دکھوں کا علاج نیند ہے تو کوئی ہم سے زیادہ گہری نیند نہیں سو سکتا اور نہ ہی اتنی آسانی اور خوبصورتی سے کوئی نیند میں چل سکتا ہے اگر ہمارے دکھوں کا علاج جاگنا ہے تو ہم اس قدر جاگ سکتے ہیں کہ ہر رات ہماری آنکھوں میں آرام کر سکتی ہے اور ہر دروازہ ہمارے دل میں کھل سکتا ہے اگر ...

    مزید پڑھیے

    ہم کہ اک بھیس لیے پھرتے ہیں

    کون سے دیس کی بابت پوچھے وقت کے دشت میں پھرتی یہ خنک سرد ہوا کن زمانوں کی یہ مدفون مہک بد نما شہر کی گلیوں میں اڑی پھرتی ہے اور یہ دور تلک پھیلی ہوئی نیند اور خواب سے بوجھل بوجھل اعتبار اور یقیں کی منزل جس کی تائید میں ہر شے ہے بقا ہے لیکن اپنے منظر کے اندھیروں سے پرے ہم خنک سرد ہوا ...

    مزید پڑھیے

    وقت گزرتا نہیں

    وقت کوئی شام نہیں جسے وحشت سے ڈھانپا جا سکے نہ کوئی گیت، جس کی لے ہمارے ہونٹوں کی گرفت میں ہو یہ ایک لا متناہی لا تعلق ہے وقت ٹھہرا رہتا ہے ان زمینوں پر جہاں سے نئے قافلے نکل پڑتے ہیں وقت گزاری کے کٹھن سفر پر گزشتہ بہت پیچھے رہ گیا جہاں تک کوئی سڑک نہیں جاتی گاڑی کی کھٹ کھٹ سے شہر ...

    مزید پڑھیے

    آگے بڑھنے والے

    آگے بڑھنے والے بدن کو کپڑوں پر اوڑھتے اور چھریاں تیز کر کے نکلتے ہیں بھیڑ کو چیر کر راستہ بناتے ناخنوں سے نوچ لیتے ہیں لباس اور عزتیں- سرخ مرچوں سے ہر آنکھ کو اندھا کر دیتے ہیں اور بڑھ جاتے ہیں رعونت بھری مسکراہٹ کے ساتھ چیختے اور چپ کرا دیتے ہیں سر عام رقص کرتے ہیں اور گاڑیاں ...

    مزید پڑھیے

    آخری دن سے پہلے

    بہت دن رہ لیا کوئے ندامت میں ہزیمت کے بہت سے وار ہم نے سہہ لیے ترا یہ شہر شہر جاں نہیں ہے ترے اس شہر میں اب اور کیا رہنا ہمارے خواب تیرے خار و خس میں تھے ہمارے لفظ تیری پیش و پس میں تھے کہ ہم ہر سانس تیری دسترس میں تھے ترے اجلے دنوں سے ہم کو کیا حصہ ملے گا گدا کے ہاتھ میں ٹوٹا ہوا ...

    مزید پڑھیے

    تم جو آتے ہو

    دن نکلتے ہیں بکھر جاتے ہیں شہر بستے ہیں اجڑ جاتے ہیں دستکیں آہنی دروازے پر سر کو ٹکرا کے پلٹ جاتی ہیں گنبد خامشی گرتا ہی نہیں چلتی رہتی ہے ہوا کھیتوں میں دالانوں میں اور اپنے ہی تلاطم میں اتر جاتی ہے ہر طرف پھول بکھر جاتے ہیں دل کی مٹی پہ کوئی رنگ اترتا ہی نہیں آنکھ نظارۂ موہوم ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 3