بارش
تو آفاق سے قطرہ قطرہ گرتی ہے سناٹے کے زینے سے اس دھرتی کے سینے میں تو تاریخ کے ایوانوں میں در آتی ہے اور بہا لے جاتی ہے جذبوں اور ایمانوں کو میلے دسترخوانوں کو تو جب بنجر دھرتی کے ماتھے کو بوسہ دیتی ہے کتنی سوئی آنکھیں کروٹ لیتی ہیں تو آتی ہے اور تری آمد کے نم سے پیاسے برتن بھر ...