Abbas Athar

عباس اطہر

  • 1940

عباس اطہر کی نظم

    ہل ٹیڑھا ہے

    شیشے کے بدن میں رہتا ہوں میں آج ہوں میرے آگے پیچھے کل ہیں پھر بھی تن تنہا ہوں حاملہ مٹی کے اوپر سینے کے بل لیٹا ہوں سر اور پیر تصادم میں ہیں تاریکی کے پیچھے بھاگ رہا ہوں کچی موت کے بعد جوں ہی زندہ ہوتا ہوں میرے سرہانے نئی نویلی دلہن دھوپ دہک اٹھتی ہے سر اور پیر تصادم میں حق زوجیت ...

    مزید پڑھیے

    نیک دل لڑکیو

    نیک دل لڑکیو آرزو کی نمائش سے گزرو تو چاروں طرف دیکھنا اور پھر جب تمہارے لہو میں کسی کا لہو سرسرائے ستاروں میں آنکھیں چھپا کر دعا مانگنا قیدیوں شاعروں اور محکوم آبادیوں کے لئے اور بیمار بچوں کی ماں کے لئے اور پھر نرم ہونٹوں کی حدت سے جب چھاتیوں میں ہوا سنسناتی سنو نیک دل لڑکیو ...

    مزید پڑھیے

    اپنے اپنے سوراخوں کا ڈر

    ''نئی سڑکوں کے نقشے'' کارخانے اونچے اونچے پل مرے منصوبے دیکھو اور کتابوں میں پڑھو'' اس نے کہا۔۔۔ ''میرے بدن پر ہاتھ بھی پھیرو مگر سوراخ سے انگلی الگ رکھو'' مگر اس کے بدن پر ہر طرف سوراخ ہی سوراخ ہیں انگلی الگ رکھو! تو کیا میں انگلیوں کو توڑ دوں؟ میں انگلیوں کو توڑ دوں؟ پھر کون تیرے ...

    مزید پڑھیے

    چپ چاپ گزر جاؤ

    یہاں ہارن بجانے کی اجازت نہیں اور میں نے تمنا کا بھرم کھول دیا ہے کہ سمندر کی ہوا سینے سے ٹکرائے تو پردہ نہ رہے اس کی مہک سر پہ کفن باندھ کے نکلی ہے ہر اک راستے ہر موڑ پہ آواز لگاتی ہے مگر کوئی نہیں رکتا بسنت آئی ہے سب بھاگ رہے ہیں کوئی آواز نہیں دیتا کوئی مڑ کے نہیں دیکھتا پٹرول ...

    مزید پڑھیے

    زمین ان کے لئے پھول کھلاتی ہے

    جب آگ جلی ناف کے نیچے تو زمیں پھیل گئی آگ جلی اور بدن پھیل گئے آنکھوں کی آوارگی بے رنگ ہوئی دھوپ ہوا چاندنی سب بستیوں میں خاک اڑی قافلے ہی قافلے تھے قافلے جو درد کے وطنوں سے چلے چلتے گئے اجنبی خوشبو کی طرف اس کی طرف جس کے لیے ساری کتابوں میں لکھا ہے وہ کبھی ہاتھ نہیں آتی کبوتروں سے ...

    مزید پڑھیے