خموش بیٹھے ہو کیوں ساز بے صدا کی طرح
خموش بیٹھے ہو کیوں ساز بے صدا کی طرح کوئی پیام تو دو رمز آشنا کی طرح کہیں تمہاری روش خار و گل پہ بار نہ ہو ریاض دہر سے گزرے چلو صبا کی طرح نیاز و عجز ہی معراج آدمیت ہیں بڑھاؤ دست سخاوت بھی التجا کی طرح جو چاہتے ہو بدلنا مزاج طوفاں کو تو ناخدا پہ بھروسا کرو خدا کی طرح مجھے ہمیشہ ...