Aamir Suhail

عامر سہیل

پاکستان کے اہم شاعروں میں شامل، جدید معاشرتی مسائل کو اپنی نظموں اورغزلوں کا موضوع بنانے کے لیے جانے جاتے ہیں

One of the prominent poets of Pakistan known for his unique responses to modern-day social issues in his Ghazals and Nazms

عامر سہیل کے تمام مواد

17 غزل (Ghazal)

    یہ ترے حسن کا آویزہ جو مہتاب نہیں

    یہ ترے حسن کا آویزہ جو مہتاب نہیں کعبۂ عشق نہیں روضہ یک خواب نہیں ایک کولاژ بناتی ہے تری خاموشی خط انکار نہیں صورت ایجاب نہیں کہر کی رحل پہ اور دھند کے جزدان میں وہ اک صحیفہ ہے کہ جس پر کوئی اعراب نہیں اک کہانی کے پس و پیش تری آہٹ ہے گھاس کے کنج نہیں کائی کے تالاب نہیں تیرے ...

    مزید پڑھیے

    گلے سے دیر تلک لگ کے روئیں ابر و سحاب

    گلے سے دیر تلک لگ کے روئیں ابر و سحاب ہٹا دیے ہیں زمان و مکاں کے ہم نے حجاب لحد کی مٹی کی تقدیر کی امان میں دوں سفید لٹھے میں کفنا کے سرخ شاخ گلاب میں آسمان ترے جسم پہ بچھا دیتا مگر یہ نیل میں چادر بنی نہیں کمخواب ترا وہ راتوں کو اٹھ کر سسک سسک رونا لہو میں نیند کی ٹیسیں پلک پہ ...

    مزید پڑھیے

    کہانیوں نے ذرا کھینچ کر بدن اپنے

    کہانیوں نے ذرا کھینچ کر بدن اپنے حرم سرا سے بلایا ہمیں وطن اپنے کھلے گلے کی قمیصیں کھلے گلے کے فراق یہ لڑکیاں ہیں بدلتی ہیں پیرہن اپنے غدر کے پھول سجاتی ہیں ایسے بالوں میں سنبھال سکتی ہوں جیسے بھرے بدن اپنے عجب بھڑک ہے شرابوں کی اور آنکھوں کی بلا ہے حسن بدکنے لگے ہیں بن ...

    مزید پڑھیے

    اس جادہ عشاق کی تقدیر عجب ہے

    اس جادہ عشاق کی تقدیر عجب ہے مٹھی میں جہاں پاؤں میں زنجیر عجب ہے بے وقعت و کم مایہ سہی خواب ہمارے خوابوں سے الگ ہونے کی تعزیر عجب ہے میں شعر کہوں اور ترے نام پہ رو دوں یہ رنج کا پیرایۂ دلگیر عجب ہے آنکھوں میں بچھے سرمئی مخمل کی ادا اور محمل میں پھٹے ہونٹوں کی تحقیر عجب ہے ہر ...

    مزید پڑھیے

    سر کو آواز سے وحشت ہی سہی

    سر کو آواز سے وحشت ہی سہی اور وحشت میں اذیت ہی سہی خاک زادی ترے عشاق بہت میں تری یاد سے غارت ہی سہی وہ کہاں ہیں کہ جو مصلوب نہ تھے میری مٹی میں بغاوت ہی سہی آہ و آہنگ و اہانت کے کنار اے مری پیاس پہ تہمت ہی سہی خود سے میثاق غلط تھا میرا اے ترے خواب ضرورت ہی سہی عشق اے عشق عزادار ...

    مزید پڑھیے

تمام

1 نظم (Nazm)

    سلونی سردیوں کی نظم

    پرانے بوٹ ہیں تسمے کھلے ہیں ابھی مٹی کے چہرے ان دھلے ہیں شرابیں اور مشکیزہ سحر کا ابھی ہے جسم پاکیزہ گجر کا ستے چہرے پہ استہزا کا موسم لہو نبضوں سے خالی کر گیا ہے گلے میں ملک کے تعویذ ڈالو بدیسی برچھیوں سے ڈر گیا ہے غزل دالان میں رکھی ہے میں نے مہک ہے سنگترے کی قاش جیسی یہ کیسی مے ...

    مزید پڑھیے