اور پھر ایسا ہوا

(منشی پریم چند کے الگو چودھری اور شیخ جمن سے معذرت کے ساتھ)
یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح سارے گاؤں میں پھیل گئی، جس نے بھی سنا دنگ رہ گیا۔
’’ایسا تو کبھی نہیں ہوا تھا؟‘‘
’’پھر آج کیسے ہوگیا؟‘‘
کانوں کان یہ بات پھیلتی چلی گئی اور گاؤں میں بھگدڑ کا سماں پیدا ہوگیا۔ ہرشخص تاڑ کے جھنڈ کی جانب دوڑا آرہاتھا۔
تاڑ کے ایک بہت لمبے پیڑپر الگو چودھری چڑھا ہوا تھا۔ لمبا تڑنگا جوان۔ سرپر بہت بڑی پگڑی باندھے۔ وہ بت کی طرح تاڑ کے پیڑ سے چپکا ہوا تھا۔ اس کا ایک ہاتھ لبنی پر تھا دوسرا پیڑ کے گرد۔ اس کی آنکھیں گردش کرنا تک بھول گئی تھیں۔ نیچے سے ساری نگاہیں اوپر کی جانب اُٹھی ہوئی تھیں سب کی نگاہوں میں ایک ہی سوال تھا۔
’’اب کیا ہوگا؟‘‘
یہ ایک ایسا سوال تھا جس کا جواب سب کو معلوم تھا، لیکن کسی کا بھی دل اس کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں تھا۔
اوپر الگو چودھری بت بنا تھا اور نیچے سب سے زیادہ پریشان تھے شیخ جمن۔
دونوں ایک دوسرے کے لیے ہی بنے تھے۔ جب جب شیخ جمن پر آفت آتی الگوچودھری اپنے لَٹھَیتوں کے ساتھ حاضر ہوجاتا۔ اسی کے دم سے شیخ جمن کی زمین پر آدی باسیوں کا قبضہ نہیں ہوا تھا، ورنہ دیگر زمین داروں کی طرح ان کی زمین پر بھی قبضہ ہوگیا ہوتا اور جب الگو چودھری مصیبت میں گرفتار ہوتا یا پولیس کے چکر میں پڑتا تو شیخ جمن کا اثرورسوخ ہی اسے بچاتا۔
یہاں الگو چودھری پر نزع کی کیفیت طاری تھی اور شیخ جمن اپنے آپ کو بالکل بے بس پارہے تھے۔
’’کیا یہ الگو چودھری کا آخری دن ہے؟‘‘ بھیڑ میں سے کسی نے یہ سوال اُچھالا۔
ساری نگاہیں شیخ جمن پر ہی جم گئیں گویا جواب وہی دیں گے، لیکن شیخ جمن کے پاس جواب کب تھا؟
الگو چودھری کی عمر یہی کوئی تیس چالیس کے درمیان رہی ہوگی، لیکن اس کی کاٹھی ایسی تھی کہ تیس کا ہی لگتا تھا۔ پورے گاؤں میں دھاکڑ جوان کے نام سے مشہور تھا۔ پاسی برادری سے تعلق رکھنے والا الگو چودھری آٹھویں پاس تھا اس لیے پوری برادری میں اس کا مان سمان بھی بہت تھا۔ وہ اپنے پشتینی پیشہ سے منسلک تھا اور جب سے سرکار نے تاڑی سے ٹیکس معاف کیا تھا، تب سے اس کا کاروبارکافی چمکا ہواتھا۔
پورے گاؤں میں سب سے بڑا تاڑبنّی شیخ جمن کا ہی تھا اور ہرسال اس کی ٹھیکہ داری الگو چودھری کو ہی ملتی تھی۔ گاؤں کے دیگر تاڑ کے پیڑ برادری کے لوگوں کے حصہ میں آتے، الگوچودھری اپنے چھوٹے بھائی پھگوا چودھری کے ساتھ مل کر اپنا کاروبار کرتاتھا۔ تاڑی فروخت کرنے کی ساری ذمہ داری دراصل پھگوا کی ہی تھی، کیوں کہ الگو کو اور بھی تو بہت سے کام تھے۔
جب الگو کے پاس دولت کی ریل پیل ہونے لگی تو اس کے شوق بھی کافی بڑھ گئے اور شوق کی اس آگ میں گھی ڈالنے کا کام کرتے تھے شیخ جمن۔ کبھی کبھار الگو اڑوس پڑوس کے گاؤں میں لمبا ہاتھ مار لیتا تو پھر مہینوں آرام سے عیش کرتا۔ اکثر ایسا بھی ہواکہ شکار کی جانب شیخ جمن ہی اشارہ کرتے، اس طرح ان کے دشمن بھی ان سے دبتے تھے اور پنگا لینے کی کوشش نہیں کرتے تھے۔ الگو نے گاؤں کے لوگوں کو کبھی پریشان نہیں کیاتھا بلکہ برادری کے علاوہ دیگر لوگوں کی بھی مدد ہاتھ کھول کر کیا کرتا تھا اس لیے وہ گاؤں میں کافی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔
شیخ جمن چوں کہ زمین دار تھے تو تھوڑا بہت ظلم بھی کرلیتے تھے کہ یہ ان کا خاندانی شوق تھا۔ کبھی کبھار ان کی زیادتی میں بھی اگر زیادتی ہوجاتی تو کام الگو چودھری ہی آتا۔
دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم۔ ایک بہت بڑا تو دوسرا بہت چھوٹا۔ ایک قدرے بوڑھا تو دوسرا جوان۔ ایک مسلمان تو دوسرا ہندو۔ ایک بڑی ذات والا تو دوسرا چھوت، لیکن پھربھی دونوں کو ایک ہی تھالی میں کھاتے ہوئے لوگوں نے دیکھا تھا، اور آج ایسا محسوس ہورہا تھاکہ یہ رشتہ ہمیشہ کے لیے ٹوٹ جائے گا۔
’’پیڑ سے چپکا الگو چودھری۔ پیڑ سے زندہ کیسے اُترے گا؟‘‘
الگو اوپر بت بنا تھا اور نیچے شیخ جمن سکتے کے عالم میں اوپر تک رہے تھے۔ تاڑبنّی لوگوں سے کھچاکھچ بھرا پڑا تھا۔ ان کے درمیان رہنے والا ایک آدمی سارے گاؤں کی موجودگی میںآج موت کو گلے لگانے والا تھا، لیکن سارے لوگ چاہ کر بھی کچھ نہیں کرپارہے تھے۔
اچانک الگو چودھری کا باپ شیخ جمن کے پاؤں پر گرگیا۔
’’مالک۔ اب آپ ہی بچا سکتے ہیں الگو کو۔‘‘
الگو کی بیوی بدھیا بھی زار و قطار روئے جارہی تھی اور شیخ جمن سوچ رہے تھے کہ انھوں نے کئی بار الگو کو پھانسی چڑھنے سے بچایا تھا۔ اس عمر میں ہی الگو نے کچھ نہیں تو تیس چالیس خون ضرور کیے تھے، لیکن آج ان کی سمجھ میں یہ نہیں آرہا تھاکہ کس طرح الگو کو موت کے منھ سے بچایا جائے۔
’’کچھ کیجیے مالک۔ الگوا کا تو پران سوکھا جارہا ہے۔‘‘ اس کا باپ پھر گڑگڑایا۔
’’کچھ کیجیے۔۔۔ کچھ کیجیے۔۔۔‘‘ کی آوازیں چاروں طرف سے آنے لگیں۔ اسی دوران گاؤں کے اسکول کے ماسٹر نے شیخ جمن سے کہا۔
’’حضور، رائفل سے کیوں نہیں اڑا دیتے۔‘‘
’’ہاں رائفل۔۔۔شیخ جمن سکتہ سے واپس آئے اور پھر چاروں طرف سے رائفل رائفل کی گردان ہونے لگی۔
’’اگر نشانہ چوک گیاتو الگو کی کھوپڑی اڑ جائے گی۔‘‘
یہ خیال آتے ہی شیخ جمن کے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ نشانہ بازی میں وہ کئی بڑے انعامات حاصل کرچکے تھے۔ ان کا نشانہ اچوک ہوتاتھا۔ ان کے نشانے کی تعریف میں اکثر الگو کہا کرتا:
’’حضور! مہابھارت کے یگ میں اگر آپ جنمے ہوتے تو ارجن آپ ہی ہوتے۔‘‘
شیخ جمن کا حال اب یہ ہورہا تھاکہ نہ نگلتے بنتا تھا اور نہ اُگلتے۔ رائفل داغیں اور نشانہ چوک جائے تو سیدھے الگو کے قتل میں جیل جائیں اور اگر نشانہ دائیں بائیں ہوجائے تو وہ موذی اور بھڑک اُٹھے گا اورالگو کی جان بچانی مشکل ہوجائے گی۔
آخر کیا کیا جائے؟
بہت بھاری سوال تھا یہ جسے وہ سنبھال نہیں پارہے تھے۔ لوگ طرح طرح کی رائے پیش کرنے لگے۔ اسی دوران تاڑبنی میں ہی پنچایت بیٹھ گئی اور سارے حالات کا پنچوں نے بہت باریکی سے جائزہ لیا۔ کافی غوروخوض کے بعد پنچوں کے درمیان آخرکار یہی فیصلہ ٹھہراکہ شیخ جمن ہی اپنی رائفل کے سہارے الگو چودھری کی جان بچائیں گے۔
جلدی سے رائفل اور گولی منگوائی گئی۔ تاڑ کا پیڑ کافی اونچا تھا اور الگو بالکل اس کے آخری سرے پر بیٹھا تھا۔ نیچے سے نشانہ لینا بہت مشکل ہورہا تھا۔ اگر سامنے کا معاملہ ہوتا تو شیخ جمن کب کا اپنا کمال دکھا چکے ہوتے، لیکن یہاں تو مقطع میں سخن گسترانہ بات آپڑی تھی۔
الگوچودھری بارہ سال کی عمر سے تاڑ کے پیڑپر چڑھنے لگاتھا، لیکن تب سے آج تک ایسا واقعہ نہیں ہوا تھا۔ پورے گاؤں میں کسی نے سوچا بھی نہیں تھاکہ ایسا بھی ہوسکتا ہے۔
’’پھر آج ہی اچانک یہ سب کیسے ہوگیا؟‘‘ اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں تھا۔ اس معاملے میں اگر کسی آدمی کا ہاتھ ہوتا تو اسے شیخ جمن کی گولی کب کی چاٹ گئی ہوتی، لیکن یہاں تو کسی کو قصوروار بھی ٹھہرایا نہیں جاسکتاتھا۔
گلابی جاڑا ابھی ابھی رخصت ہوا تھا۔ ماحول میں اس کا گلابی پن اب بھی برقرار تھا۔ الگو چودھری صبح سویرے ہی بیدار ہوتا اور پھگوا کے ساتھ تاڑبنی کی راہ لیتا۔ شام میں جو لبنی لگاتے، اسے سورج طلوع ہونے سے قبل ہی اُتارلیتے۔ اس تاڑی میں سورج کی کرنیں نہیں پڑتیں، اس لیے اس میں نشہ بھی نہیں ہوتا۔ نشہ آور بنانے کے لیے اسے گھر میں پکایا جاتا۔ اس کام میں بدھیا اس کا ہاتھ بٹاتی، باغیچہ سے دونوں سیدھے شیخ جمن کے پاس آتے اور انھیں دو لبنی تازہ تاڑی پیش کرتے جسے وہ نہار منھ ہی پوری کی پوری گٹک لیتے۔ اس سے ان کا پیٹ کبھی خراب نہیں ہواتھا، اور صحت بھی ایسی تھی کہ بڑھاپا ان سے بھاگا پھر رہا تھا۔
آج بھی الگو چودھری پھگوا کے ساتھ تاڑبنی میں آیا تھا۔ پھگوا نیچے رہ گیا اور الگو رسّی کے چھلا کے سہارے دنادن پیڑ پر چڑھ گیا۔ رسّی کا ایک مضبوط چھلّا اس کی کمر کے گرد تھا جس کا ایک سرا پیڑ کے گرد تھا۔ اب وہ اپنا پاؤں پیڑ سے ٹکائے اپنے ہاتھوں سے بھری لبنی اُتارنے لگا، لبنی تاڑی سے لبالب بھری ہوئی تھی اس نے اس کی تاڑی اپنی کمر سے لٹکی لبنی میں اُنڈیلی اور اسے دوبارہ اپنی جگہ باندھ دیا جسے شام میں اُتارا جاتا۔ اس کے بعد اسے نیچے اتر جانا تھا،لیکن تبھی ایسا ہوگیا جس کے ہونے کا گمان بھی کسی کو نہیں تھا۔
اس سے قبل کہ الگو نیچے کی جانب اترنا شروع کرتا زمین پر کھڑا پھگوا چیخ پڑا۔
’’الگو ارے سانپ۔۔۔ تمہارے سرپر۔‘‘
بس کیا تھا الگو کو جیسے سچ مچ سانپ سونگھ گیا وہ جس حال میں تھا اسی حال میں بت بن گیا۔
ہوا یہ کہ جب الگو لبنی سے تاڑی نکال رہا تھا اسی دوران ایک گہمن سانپ جو پیڑپر مینا کا بچہ کھانے کے لالچ میں گیا تھا اور کامیاب ہونے کے بعد اپنا پیٹ پھیلائے پیڑپر ہی تھا۔اس نے لبنی سے دوچار گھونٹ تاڑی بھی پی لی تھی اور آسودگی کے عالم میں آرام کررہا تھا۔ نہ جانے اس کے جی میں کیاآیاکہ وہ دھیرے سے الگو چودھری کی پگڑی پر آکر بیٹھ گیا۔ وہ کنڈلی مارے بیٹھا تھا اور اپنا پھن پھیلائے اپنی شاخ دار زبان باہر نکالے اپنے وجود کا اعلان کررہا تھا۔
الگو کے جی میں آیاکہ وہ تیزی سے اپنی پگڑی اچھال دے، لیکن خدشہ یہ تھاکہ سانپ اسے ڈس نہ لے۔ گاؤں میں یہ بات عام تھی کہ سانپ پیڑپر چڑھ کر چڑیوں کے بچے کھا جایا کرتاتھا، لیکن جو شرارت اس نے آج کی تھی وہ سب کے لیے نئی تھی۔
رائفل آنے کے بعد الگو چودھری کی جان میں جان آئی۔ اسے شیخ جمن کے نشانے پر پورا بھروسہ تھا۔ شیخ جمن نے انیکوں بار اس کی جان بچائی تھی آج بھی وہی اس کے کام آئیں گے یہ سوچ کر اسے سکون مل گیا تھا۔
شیخ جمن نے الگو چودھری کے خاندان والوں کے ساتھ پنچوں کو گواہ بنایاکہ اگر الگو کی جان بچانے میں ان کا نشانہ چوک جائے اور خدانخواستہ الگو کی کھوپڑی اڑ جائے تو اس کے ذمہ دار وہ نہیں ٹھہرائے جائیں گے۔ ماسٹرصاحب نے پنچ نامہ تیار کیا اور پھر سب سے انگوٹھے کا نشان لگواکر شیخ جمن نے اﷲ کا نام لے کر نشانہ سادھا۔
’’دھائیں‘‘ کی آواز ہوئی اور چاروں طرف خوشی کی لہر دوڑگئی۔ نشانہ اچوک تھا اور سانپ کا پھن گردن کے پاس سے اڑ گیا تھا۔
الگو چودھری کی جان بچ گئی۔ آج شیخ جمن نے اس پر ایک ایسا احسان کیا تھا جس کے عوض وہ دل ہی دل میں ساری زندگی ان کا غلام بنے رہنے کا وعدہ کرچکا تھا۔ الگو نے تیرکی سی تیزی کے ساتھ سر کی پگڑی اچھال دی۔ سانپ کا دھڑ زمین پر گر کر اینٹھنے لگا۔ گہمن سانپ بہت بڑا اور پرانا تھا اس نے آج شیخ جمن کے نشانے کا کمال دیکھ لیا تھا۔
الگو زمین سے قدرے دور ہی تھاکہ وہ پیڑ سے زمین پر کود گیا اور دوڑکر شیخ جمن سے لپٹ گیا۔ اس کا پورا جسم خوف کے مارے اب بھی کانپ رہا تھا جسے شیخ جمن اپنی بانہوں میں سنبھالے ہوئے تھے۔ الگو ان سے لپٹا کانپتا رہا اور اس کی آنکھوں سے خوشی کے آنسو جاری رہے۔
پھر نہ جانے کیا ہواکہ الگو چودھری کا جسم لہرایا اور وہ شیخ جمن کی بانہوں سے پھسل کر زمین پر آرہا تھا۔ اس کے منھ سے جھاگ جاری ہوگیا۔ جسم نیلا ہونے لگا اور آنکھیں پتھراگئیں۔
’’سانپ تو مرگیا۔ پھر یہ سب کیسے ہوگیا؟ آج تک ایسا تو نہیں ہواتھا۔‘‘
سارے لوگ حیران تھے۔ شیخ جمن کو کاٹو تو خون نہیں۔ تبھی اچانک ماسٹرصاحب کی نظر الگو چودھری کے تلوے پر پڑی جہاں سانپ کا گولی سے اڑا ہوا پھن چپکا ہوا تھا جس پر انجانے میں الگو کود گیا تھا۔