اسیر

افق کے سرخ کہرے میں کہستاں ڈوبا ڈوبا ہے
پکھیرو کنج میں جھنکار کو اپنی سموتے ہیں
تلاطم گھاس کے بن کا تھما تارے درختوں کی
گھنی شاخوں کے آویزاں میں موتی سے پروتے ہیں


سبھی سکھیاں گھروں کو لے کے گاگر جا چکیں کب کی
دریچوں سے اب ان کے روشنی رہ رہ کے چھنتی ہے
دھواں چولہوں کا حلقہ حلقہ لہراتا ہے آنگن میں
اداسی شام کی اک زمزمہ اک گیت بنتی ہے


یہ پانی جس نے دی پھولوں کو خوشبو دوب کی رنگت
حلاوت گھول دی آزاد چڑیوں کے ترنم میں
دہکتے زرد ٹیلوں کے دلوں کی خنکیاں بخشیں
ڈھلا آخر یہ کیسے میرے آزردہ تبسم میں
تہی گاگر کنارے پر رکھے اس سوچ میں گم ہوں
کہ یہ زنجیر کیا ہے جس نے مجھ کو باندھ رکھا ہے