اشکوں کو تیرے در پہ بہا کر چلے گئے
اشکوں کو تیرے در پہ بہا کر چلے گئے
سپنے ہزار دل میں دبا کر چلے گئے
یک طرفہ ہو کے رہ گئی چاہت وفا میری
آنکھوں میں اشک اپنے چھپا کر چلے گئے
ٹوٹا ہے بے رخی سے تری آج میرا دل
چپکے سے زخم دل کا بڑھا کر چلے گئے
ان کی نظر میں دل مرا انمول تھا کبھی
پیروں تلے وہ دل کو دبا کر چلے گئے
ان سے کوئی گلہ ہے نہ قسمت کو کوئی دوش
خوشیاں تری شگفتہؔ جلا کر چلے گئے