اشک آنکھوں میں مری جان لیے بیٹھی ہوں

اشک آنکھوں میں مری جان لیے بیٹھی ہوں
لب پہ تیرے لیے مسکان لئے بیٹھی ہوں


تم بھی میری طرح کچھ ٹھوس ارادہ کر لو
میں نبھا دینے کے پیمان لیے بیٹھی ہوں


جلد آ جاؤ خزاں آنے سے پہلے پہلے
میں بہاروں کے کچھ احسان لیے بیٹھی ہوں


ایک مدت سے تری رہ میں بچھی ہیں آنکھیں
میں شب وصل کے ارمان لیے بیٹھی ہوں


مجھ کو ڈر ہے نہ کہیں ضبط کی گر جائے فصیل
آنکھوں میں اشک کا طوفان لیے بیٹھی ہوں


وہ مرے پیار کی خوشبو سے نہیں ہے واقف
اپنے دامن میں گلستان لیے بیٹھی ہوں